STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Saturday, March 20, 2010

مجید بلوچ کی شہادت

فرد اہم نہیں ہوتا اس کا وہ کردار اور عمل اہم ہوتا ہے۔جو وہ ایک خاص نظریے اور مقصد کے تحت انجام دیتا ہے۔ نظریہ مقصد کی تشکیل کرتی ہے اور مقصد کا حصول عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔مقصد اور نظریہ سے عاری زندگی اس صحرائی جھاڑی کی مانند ہوتی ہے جو نہ تو کسی مسافر کو سایہ فراہم کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کے شکم کا بوجھ بانٹ سکتا ہے۔عظیم انسان وہ ہوتے ہیں جو جبر، استحصال اور انسان کے ہاتھ انسان کی غلامی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ شمع امید کے ہتھیار سے ظلما ت کو شکست دے کر نوید سحر دیتے ہیں۔ یہی انسان تاریخ کا روشن باب بن کر اساطیر کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اسپارٹکس سے لے کر شہید غلام محمد تک تاریخ پر ایسے ہی لوگوں نے راج کیا ہے۔ میں اس فرد سے واقف نہیں جس کی لاش وحدت کالونی کے کھیتوں میں پڑی ہے جس پر ایک دہشت زدہ تنخواہ دار وردی پوش پہرہ دے رہا ہے۔میرے لیے یا شاید آپ کے لیے بھی یہ جاننا اہم نہیں خون میں لت پت یہ انسان کون ہے کیونکہ فرد اہم نہیں ہوتا اس کا وہ کردار اور عمل اہم ہوتا ہے جو وہ ایک خاص نظریے اور مقصد کے تحت انجام دیتا ہے۔ہم جانتے ہیں وہ انسان جسے مجید بلوچ کے نام سے شناخت کیا جارہا ہے ایک اعلیٰ مقصد اور نظریے پر قربان ہوا۔ وہ تاریکی کی قوتوں سے لڑتا رہا ہمیں روشنی دینے کے لیے وہ ہم گمنام افراد کے مجموعے کو بلوچ شناخت دینے کے لیے مصروف جہد تھا۔ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔یہی کافی ہے کسی کو سمجھنے اور جاننے کے لیے آئیے! دیکھتے ہیں ہم غلاموں کے دوست کے ساتھ درحقیقت ہوا کیا تھا۔
سب سے پہلے ایف سی نے اخبارات کو ایک پریس ریلیز جاری کی۔ اس کے مطابق ”ایف سی کی گشتی پارٹی معمول کے مطابق بروری روڈ پر گشت کررہی تھی کہ اچانک نامعلوم مسلح افراد نے ایف سی کی گشتی گاڑی پر دستی بم سے حملہ کیا اور فائرنگ شروع کردی جس سے ایف سی کے 4اہلکارزخمی ہوگئے جبکہ ایف سی کی جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور مارا گیا دیگر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے”اس پریس ریلیز کے چند گھنٹوں بعد غزہ بند اسکاﺅٹس کے کمانڈنٹ کرنل شہزادہ عامر نے میڈیا کو بتایا کہ ”ایک گھر سے ایف سی پرفائرنگ کی گئی ایف سی نے پوزیشنیں سنبھال کر اس مکان کو گھیرلیا۔ کرنل عامر کے مطابق ایف سی اہلکار سامنے سے اندر داخل ہوئے جبکہ حملہ آور پیچھے سے فرار ہوگئے۔بقول ان کے حملہ آوروں کاایک ساتھی مکان سے کچھ فاصلے پر کھیتوں میں جاتا دکھائی دیا۔ ایف سی نے اس پر فائرنگ کی اور وہ ہلاک ہوگیا۔
ایف سی کے دونوں بیانات کے درمیان تضاد واضح ہے۔ پہلے بیان میں گاڑی پر حملہ اور جوابی فائرنگ کی کہانی بیان کی گئی جبکہ بعدمیں ایک مکان کا قصہ شروع کردیا گیا۔ چونکہ دوسرا بیان ایف سی کے ایک ذمہ دا ر افسر کی جانب سے سامنے آیا اس لیے فی الحال اپنی توجہ اس پر مرکوز کرتے ہیں۔
کرنل عامر بتاتے ہیں مکان کو ”گھیرے“ میں لیا گیا مگر دوسری سانس میں وہ پہلی بات بھول کر حملہ آور کو پچھلے راستے سے فرار ہوتے دکھاتے ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آتا گھیرے میں لینے کا مطلب کیاہوتا ہے۔ اگر مکان گھیرے میں تھا تو وہاں سے کسی کا آسانی سے فرارہونا ممکن نہیں اس کے لیے گھیراﺅ تو ڑنا لازمی ہے۔اگر گھیراﺅ توڑا گیا تو ایف سی اہلکاروں کو یقینا جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہوگا لیکن کرنل عامر نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ کرنل عامر کی تضاد بیانی صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ان کے مطابق حملہ آور وںکا ایک ساتھی کھیتوں میں جارہا تھا ایف سی اہلکاروں نے ان کو دیکھ کر فائرنگ کردی۔ عالمی قوانین کے مطابق ایک فرار ہوتے ملزم کو خبردار کرنا لازمی ہے اس کے لیے عمومی طور پر ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا جاتا ہے اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو آخری حربے کے طور پر ملزم کو زخمی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب اگر کرنل شہزادہ عامر کی گفتگو سنی جائے تو وہاں مکمل رعونت ملتی ہے۔ کثیر القومی ریاست کے علمبردار نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں وکارکنوں کے لیے صرف اس ایک جملے میں بہت کچھ پوشیدہ ہے کہ ”ہم نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا“یہاںکرنل عامر نے بلوچ پاکستان رشتے کو واضح کردیا ہے ۔
خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ وگرنہ ”ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت“ پھر آتے ہیں کرنل عامر کی طرف۔ فرماتے ہیں فرار ہوتے حملہ آور پر فائرنگ کی گئی گویا ان کو پیچھے سے نشانہ بنایا گیا لیکن اخبارات نے جو تصاویر جاری کیں ان کو دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ بلوچ قومی ہیرو نے بلوچ سنت پر عمل کرتے ہوئے دشمن کی گولیاں اپنے سینے پر برداشت کی ہیں۔ چونکہ شہید کو گولیاں سامنے سے لگی ہیں اس لیے کرنل عامر پر مزید اعتبار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یقینا شہید مجید نے غلامی کے خلاف لڑنے لڑتے اپنی جان دی۔ اس کی تصدیق بی ایل اے کے ترجمان میرک بلوچ کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ بی ایل کے مطابق ہزاروں بزدل فورسز نے شہید مجید بلوچ کو گھر کے اندر گھیر کر گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر شہید نے مقابلہ کرکے جام شہاد ت نوش کیا۔گویا ایف سی کا مقصد انکو زندہ گرفتار کرنا تھا مگر شہید مجید بلوچ نے قوم کا سرنیچا نہ ہونے دیا اور مقابلہ کرکے شہید ہونا پسند کیا۔ کاش جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی بھی اس جرات کا مظاہرہ کرتے کم از کم آج گجر کو ہم پر ہنسنے کا موقع تو نہ ملتا۔
اس پورے منظر نامہ میں ایک چیز واضح نہیں ہوتی وہ یہ کہ شہید مجید بلوچ تنہا تھے یا ان کے ساتھ دیگر فکری دوست بھی اس خونی معرکے میں شامل تھے۔ ایف سی کمانڈنٹ جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنا اعتبار کھوچکے ہیں اس لیے مجبوراً ہمیں بی ایل اے سے رجوع کرنا پڑے گا مگر بی ایل اے بھی اس حوالے سے مکمل خاموش ہے۔بی ایل اے نے غالباً اس لیے دیگر سرمچاروں کا تذکرہ نہں کیا کیونکہ پھر اس سے ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں یا شاید مجید بلوچ واقعی اس وقت تنہا تھے۔ شہید مجید بلوچ اگر اکیلے لڑرہے تھے تو ہمیں ان کی دلیری اور بہادری کو ”سرخ سلام“ پیش کرنا ہوگا اور اگر ان کے ساتھ دیگر دوست بھی تھے۔ اور انہوںنے خود کو قربان کرکے اپنے فکری ساتھیوں کی قیمتی جان بچائی تو ان کے اس ایثار اور قربانی کو میں چاہتے ہوئے بھی بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس جذبے کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں بس محسوس کرسکتے ہیں ہم اس کو۔
ایف سی کی تضاد بیانی قابل ملامت نہیں بلکہ قابل رحم ہے کیونکہ وہ مجید بلوچ کو شہید کرنے کے باوجود ان کے نظریے کو شکست دینے میں ناکام رہی۔ دوسری جانب ایف سی کی تضاد بیانی کے حوالے سے دلچسپ واقعہ بلوچستان اسمبلی میں پیش آیا۔ رکن بلوچستان اسمبلی آغا عرفان کریم نے معصومیت سے کہا کہ ہم نے ایف سی کو اپنی حفاظت کے لیے بلایا مگر وہ ہمارے ہی لوگوں کو ماررہی ہے۔ اب کوئی اس گم کردہ راہ سے پوچھے ایف سی کو آپ نے کس سے کس کی حفاظت کے لیے تعینات کیا؟؟؟۔ ملک آپ کا ، لوگ آپ کے، حفاظت غیر ملکی ایف سی کرے گی۔ جان کی امان پائے بغیر آغا صاحب سے پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ جناب آپ کو کس سے خطرہ ہے جس کا مداوا ایف سی ہے؟ ۔ آغا عرفان کریم نے غالباً بلوچستان اسمبلی کے ماتمی ماحول کو زعفران زار بنانے کے لیے اس لطیفے کا سہارا لیا ہوگا۔

No comments: