STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Saturday, May 1, 2010

ناظمہ طالب کی ہلاکت اور بلوچ کوڈ آف آنر

اردو زبان کے معروف شاعر ن،م راشد نے ہندوستان پر برطانوی قبضے کے خلا ف ایک طویل احتجاجی نظم لکھی ہے۔اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ ”ہندوستان پر برطانوی قبضہ ناجائزہے، ہمارے نوجوان قتل کئے جارہے ہیں، خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے، ہماری حالت جانوروں سے بدتر بنادی گئی ہے، ایک دن میں نے برطانیہ سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ ” میں نے ایک انگریز افسر کی بیٹی کو اغواءکرلیا پھر ساری رات اس سے” بدلہ“ لیتا رہا۔“
ن ۔ م راشد کے ان خیالات نے اردو ادیبوں کو چونکا دیا۔ بعض نے اسے غیر انسانی اور غیر اخلاقی قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی جبکہ بعض نے اسے ایک تہی دست غلام کا فطری ردِ عمل قرار دیا۔راشد درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ آفاقی اخلاقیات کا دنیا میں کوئی وجود نہیں۔
بنگلہ تحریک کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب جنرل نیازی کے ” دلیر“ اور”بہادر“سپاہی مجبور اور نہتی بنگالی خواتین کو اپنے ”فلسفہ مردانگی“کے عملی اسباق پڑھارہے تھے تو مکتی باہنی کے سر پھرے نوجوانوں نے آئزک نیوٹن کے تیسرے قانون پر عمل کرتے ہوئے اپنا ردِ عمل بہاری خواتین پر ظاہر کیا۔مکتی باہنی کا وہ نوجوان جس نے بچپن سے یہی سنا تھا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، جس نے ہمیشہ خود کو اپنی لاڈلی بہن کا محافظ سمجھا جب اپنی جنت کو مسمار ہوتا دیکھے یا اپنی باہوٹ بہن کی عزت کو سرِ بازار نیلام ہوتا سنے تو زخمی احساسات اور مجروح جذبات کے حامل اس نوجوان کا فطری ردِ عمل کیا ہوگا؟“ کیاتہذیب، اقدار وروایات اور اخلاقیات انسانی فطرت سے زیادہ پراثر ہوتے ہیں؟فیصلہ پھر قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
مذکورہ بالادوواقعات پر غورو فکر کے بعد کوئٹہ چلتے ہیں جہاں گزشتہ دنوں نوآباد کار قوم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون پروفیسر بلوچ لبریشن آرمی کے غیض وغضب کا نشانہ بنی۔نواب اسلم رئیسانی، نواب ذوالفقار مگسی، نوابزادہ جمیل بگٹی اور حاجی لشکری رئیسانی سمیت پاکستان بھر کے سیاستدانوں نے اس قتل کی مذمت کی۔ لشکری رئیسانی نے قاتلوں کو ”بے غیرت“نوابزادہ جمیل بگٹی نے ”بزدل “ اور اسلم رئیسانی ونواب مگسی نے اس فعل کو بلوچ روایات کے منافی قرار دیا۔
اس صورتحال کی وجہ سے بلوچ آزادی پسند بھی منقسم نظر آتے ہےں۔چونکہ سیاسی جماعتیں اور میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اس لیے بلوچ جماعتوں کی خاموشی کے باعث نوابزادہ جمیل بگٹی، نواب رئیسانی ، نواب مگسی ، پاکستانی جماعتوں اور میڈیا نے مل کر بلوچ رائے عامہ کو خاتون پروفیسر کے حق میں ہموار کردیا۔ بلوچ معاشرے میں یہ عمومی تاثر پھیل چکا ہے کہ خاتون پروفیسر ناظمہ طالب کا قتل بلوچ قومی روایات ، اقدار اور ثقافت کی خلاف ورزی ہے۔غیر منطقی اور بودے دلائل پر مشتمل احمقانہ بیانات نے بی ایل اے کو محرم سے مجرم بنادیا ہے۔
بالفرض اگر آزادی پسندوں کی اس رائے کو مان لیا جائے کہ خاتون کا قتل بلوچ اخلاقیات کے مطابق جائز نہیںتو پھر آباد کار کے گھر پردستی بم حملوں کو کس خانے میں فٹ کیا جائے گا؟؟۔گھربھی تو بلوچ اخلاقیات میں ”مقدس“ہوتا ہے پھر گھر پر حملے کی صورت میں گھرمیں موجود تمام افراد نشانہ بن سکتے ہیں ۔ جن میں یقینا خواتین، بچے اور بوڑھے بھی ہوں گے تو کیا اس کو بھی ناجائز قرار دیا جائے؟؟۔ آباد کار حجام، دھوبی، نائی اور مزدور بھی بظاہر”معصوم “ ہوتے ہیں ان کا کیا کیا جائے؟؟؟یہ اور ان جیسے تمام اقدام اگر ناجائز تصور کرلیے جائیں تو بلوچ وطن میں آباد کاری روکنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟؟۔بلوچ عرصہ دراز سے آباد کاروں سے بلوچستان چھوڑنے کی اپیل کررہے ہیں اس کے باوجود وہ ہمارے سینوں پر مونگ دلنے سے باز نہیں آتے تو بلوچ آخر کرے تو کیا کرے؟؟۔ تحریک آزادی سے وابستہ وہ افراد جو ناظمہ طالب کے قتل پر افسردہ اور شرمندہ ہیں وہ نہ صرف ان سوالات کے جوابات تلاش کریں بلکہ ہمیں بھی آگاہ کریں۔
جہاں تک پاکستانی سیاست سے منسلک بلوچ شخصیات اور کنفیوژن کے شکار جمیل بگٹی کے مخالفانہ بیانات وخیالات کا تعلق ہے اگر ان کو انتہا کی منافقت اوربدنیتی قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ اسی کوئٹہ میں جہاں ناظمہ طالب ہلاک ہوئیں وہاں چند دنوں قبل ایک ضعیف العمر بلوچ خاتون فورسز کی ”بہادری “ کی مثال بنی لیکن اس وقت پاکستانی میڈیا سمیت تمام بلوچ اراکین پارلیمنٹ نے چپ سادھ لی۔ کیا بلوچ خواتین کے قتل پر بلوچ روایات لاگو نہیں ہوتے؟؟ جب معصوم شہناز بلوچ آغاز خان ہسپتال میں ایڑیا رگڑ رہی تھیں اس وقت ”ثناءخوان تقدیس روایات“ کہاں تھے؟؟
زرینہ بلوچ جیسی ان گنت بلوچ خواتین کی بے توقیری پر محترم لشکری رئیسانی کی ”غیرت “ خواب غفلت سے بیدار کیوں نہیں ہوتی؟ پیاسی یاسمین کی لہو لہان لاش پر تو کسی کا دل نہیں پسیجا۔ پھر آباد کار ناظمہ طالب پر ہاہا کار کیوں؟؟۔کریمہ بلوچ کا بلوچی سر ناظمہ طالب سے کم اہم ہے جس پر غیر ملکی فورسز ڈنڈے برساتے ہیں تو اسلم رئیسانی بزدلی کا طعنہ دینا بھول جاتے ہیں۔
غصہ عین انسانی فطرت ہے۔ غصے میں آکر فرط جذبات میں انتہائی قدم اٹھانا کوئی خامی نہیں۔ سرزمین پر قبضہ، ماں بہنوں کی بے توقیری، دوستوں پر تشدد اور ان کا قتل اگر کسی کو ان عوامل پر غصہ نہ آئے تو وہ بااخلاق نہیں بے حس ہوتا ہے۔ پھر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلوچ اس وقت من حیث القوم حالت جنگ میں ہے۔ جنگی اصول اور روایات مروجہ اصول وروایات سے نہ صرف مختلف ہوتے ہیں بلکہ موقع محل اور دشمن کی نفسیات کی مناسبت سے ان میں ردوقبول کا عمل بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ مستقبل کی آزاد بلوچ ریاست میں پنجابی خاتون ایک طرف پنجابی مرد کا قتل بھی یقینا ناجائز تصور کیا جائے گا اور اس کے مرتکب کو سزا بھی دی جائے گی مگر موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں۔ جس طرح جدید ریاستوں میں جنگی حالت کے اعلان بعدبنیادی انسانی حقوق معطل کردیے جاتے ہیں، اسی طرح آج کے پر آشوب دور میں بعض معاملات کو نظر انداز کرنا لازمی ہے۔ بلوچ کوڈ آف آنر کی پاسداری یقینا ہر بلوچ کا قومی فرض ہے جس کی تلقین محترم انور ساجدی اپنے کالم ”آئینہ“ ( روزنامہ انتخاب ، یکم مئی 2010) میں کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر انور ساجدی صاحب دانستہ یا نادانستہ طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کرگئے کہ بلوچ قبائلی جنگوں کے دوران اگر کوڈ آف آنر کا خیال رکھا جاتا تھا تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فریقین نہ صرف کوڈ آف آنر کو سمجھتے ہیں بلکہ اس کو تسلیم بھی کرتے ہیں مگر اس وقت بلوچ جس سے نبرد آزما ہے وہ بلوچ کوڈ آف آنر تو درکنار سرزمین پنجاب کی روایات واقدار سے بھی عاری ہے۔ اس چیز کو ایک اوسط ذہنیت کا حامل فرد بھی سمجھتا ہوگا کہ مرغی اور اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے۔ جہاں غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کی میتیوں کو مسخ کرکے ان کی بے حرمتی کی جائے، رسول بخش مینگل کو تشدد کا نشانہ بناکر درخت سے لٹکادیا جائے، ذاکر مجید، ڈاکٹر دین محمد، جلیل ریکی، محبوب واڈیلہ اور بوہیر بنگلزئی سمیت سینکڑوں افراد کی ماں بہنوں کو زندہ درگور کردیا جائے، اکبر وبالا چ کو بے دردی سے چھین لیا جائے وہاں اعتدال کی تلقین زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک کا کلیجہ پھٹ گیا دوسرا کہتا ہے صبر کرو۔
ایک انسان ہونے کے ناطے مجھے ناظمہ طالب کے اہلِ خانہ سے مکمل ہمدری ہے۔ یقینا وہ بھی کسی کی ماں، بہن، بیٹی، بھابھی اور ساس ہوں گی۔ ان کی میت وصول کرتے وقت ان کے ورثاءجس کربناک صورتحال سے دوچار ہوئے اس کا احساس ہمیں بھی ہے۔مگر ان کے اہلِ خانہ کو لمحہ بھر تو قف کرکے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔ بلوچ بے رحم اور وحشی نہیں جو بلاوجہ قتل کرتے پھریں۔ ناظمہ طالب کے ورثاءاس قتل کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ پنجاب اور پنجابی کے نام پر بلوچ وطن پر قبضہ کیا گیا۔ قبضے سے لے کر آج دن تک ان کا استحصال کیا جارہاہے، اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے کبھی مسلح دفاعی تنظیم بناکر نوجوانوں کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں تو کبھی غیرت کا نام لے کر بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکے جاتے ہیں بلوچ وطن کے انمول فرزندوں ودختروں کو رزق خاک بنایا گیا اور ان تمام مظالم پر پنجابی خاموش رہے۔ پنجابی عوام نے ہمیشہ بلوچ وطن پر پاکستانی قبضے کو درست سمجھا اور بلوچ پر ہونے والے مظالم کی حمایت کی اگر پنجابی اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ بلوچستان پر سے اپنا قبضہ ختم کریں بلوچ قتل عام فی الفور بند کردیں تو یقینا آئندہ کوئٹہ کی سڑکوں پر کوئی ناظمہ طالب نشانہ نہیں بنے گی۔ یہی بلوچ کوڈ آف آنر ہے۔