STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Saturday, July 30, 2011

بلوچ گمشدگان اور پاکستانی معاشرہ

 بلوچ گمشدگان اور پاکستانی معاشرہ
بالاچ خان
 ارجنٹینا کے ناول نگار عمر ریوابیلا کا دہشت انگیز ناول
جس کا اردو ترجمہ معروف ادیب و دانشور آصف فرخی نے ”ماتم ایک عورت کا“ کے نام سے انتہائی خوبصورتی سے کیا ہے ”لاپتہ افراد“، ان کی ازیت ناک اور موت سے بدتر زندگی۔ ”گمشدگان“ کے لواحقین کی بے بسی اور معاشرے کی بے حسی کا ایک کریہہ المنظر عکس ہے۔ بقول آصف فرخی کے اس کتاب پر کرسچن سائنس مانیٹر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”یہ شدید مذمت کرتی ہے اذیت کے پورے سلسلے کی، ان حکومتوں کی جو اس کے احکام جاری کرتی ہیں اور ان معاشروں کی بھی جو اسے برداشت کرتے ہیں“
کتاب گو کہ ارجنٹینا کی فوجی حکومت اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے انقلابی جہد کاروں کے پس منظر میں لکھی گئی ہے مگر اس کا ایک ایک سطر بلوچ وطن، بلوچ قوم، پاکستانی نوآبادکار اور پاکستانی معاشرے (پنجاب، سندھ اور پختونخواہ) سے متعلق ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ کرسچن سائنس مانیٹر کے تبصرے پر آصف فرخی نے سرد آہ بھر کرکہا کہ ”کیا اس آخری فقرے کہ یہ کتاب شدید مذمت کرتی ہے ان معاشروں کی بھی جو اسے برداشت کرتے ہیں“کی زد میں ہم اور آپ نہیں آتے
بلوچ وطن میں اغواءنما گرفتاریاں، دوران حراست غیر انسانی تشدد، قتل اور پھر مسخ لاشوں کی برآمدگی ایک معمول بن چکی ہے۔ اس غیر انسانی صورتحال پر پاکستانی معاشرہ بے حسی کی آخری حدوں کو بھی پھلانگتی نظر آتی ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک اس کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی نظر نہیں آتی۔
میڈیا نان ایشوز پر گھنٹوں بحث کرتی نظر آتی ہے، سیاسی جماعتیں فروعی مسائل پر زمین کو تانبہ بنارہی ہیں، مذہبی جماعتیں امریکہ اور بھارت کی توپوں میں کیڑے بھر جانے کی دعائیں مانگ رہی ہیں، سول سوسائٹی گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑوں کے تحفظ پر زمین آسمان ایک کررہی ہے مگر، مگر اذیت کے ایک پورے سلسلے پر، انسان کی بے حرمتی پر، فرعون دوراں کی جھوٹی خدائی پر اور ”پراسرار“ و ”بے تیغ لڑتے مومنوں“ کی قاتل ادا ¶ں پر سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔
پاکستانی معاشرہ ذہنی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس دیوالیہ پن میں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں محمود و ایاز۔ کراچی، لاہور، پنڈی، حیدرآباد اور فیصل آباد کے کسی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سے بلوچ اور بلوچستان متعلق دریافت کریں، جواب ملے گا، بھارت کے ایجنٹ ہیں، سردار عوام دشمن ہیں، جی! احساس محرومی ہے، جناب یہ سارا امریکہ اور اسرائیل کا کیا دھرا ہے، یار یہ پنجابی کو مارنے والے فاشسٹ ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کے متعلق ان کی لاعلمی ملاحظہ ہو، کوئٹہ کے علاوہ کسی دوسرے شہر کا نام تک نہیں جانتے، بلوچ قوم کو ”بلوچی بھائی“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ بے حس معاشرے کے ان بے حس ارکان کو اگر بتایا جائے کہ بلوچستان سے ہزاروں لوگ ”لاپتہ“ ہیں جن میں سے سینکڑوں کی مسخ لاشیں برآمد ہوئی ہیں تو، نفرت سے جواب ملے گا ”ڈالر کی حصہ داری پر لڑائی کا نتیجہ ہے“۔ یہ محض ہوائی باتیں نہیں ہیں، بلکہ پاکستانی معاشرے کے انتہائی پڑھے لکھے سمجھے جانے والے افراد کی آن دی ریکارڈ باتیں ہیں۔ اس کھوکھلے اور بے حس معاشرے میں کوئی ایسا نہیں جو کمسن مہلب بلوچ کی صدا ”میرے ابو دو سال سے گھر نہیں آئے“ پر تڑپ اٹھے، بھائی کی گمشدگی پر سنیہ کریم کا نوحہ بے اثر، ذاکر مجید کی ہمشیرہ کی افسردہ نگاہیں بے قدر، جوان بیٹے کی تلاش میں سرگرداں قدیر بلوچ ’کچھ نہیں‘ بیٹے کی مسخ لاش وصول کرکے پوتے آصف بلوچ کیلئے آزردہ دادی ہوں یا پھول جیسے الیاس نذر کی مسلی ہوئی لاش وصول کرنے والی ماں، اس پست ذہنیت کے حامل معاشرے میں کوئی ایسا نہیں جو عمر ریوابیلا کی طرح چلا کر کہے، بس بہت ہوگیا۔
ناول میں پھر بھی ایک پادری اس ظلم پر احتجاج کرتا ملتا ہے مگر پاکستان کی مسجدوں میں کوئی ایسا مولوی دکھائی نہیں دیتا جو اپنے وعظوں میں ظالم کو للکارسکے، اسلام کی سربلندی کے نام پر منافقت سے چھٹکارا پاکر اسلام کے اصل درس ”تم پر دوسرے مسلمان کا مال اور خون حرام ہے“ کی تشریح کرکے حاکمان وقت کے خلاف معاشرے کو جگادے۔ کوئی نہیں، کوئی بھی تو نہیں۔
اس معاشرے کے ساتھ بلوچ خود کو منسلک کرسکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ بلوچ بے حس نہیں، مردہ ضمیر نہیں، اس معاشرے کا حصہ نہیں۔ بابا مری درست فرماتے ہیں، ہم سور کے ساتھ رہ سکتے ہیں مگر ان کے ساتھ نہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتاکہ بلوچ پہاڑوں سے اتر کر پنجاب کی عوامی عدالت میں اپنا مقدمہ لڑیں۔ یہ تو ایسا ہے جیسے کوئی سراب کے پانی میں نہاکر آسمان میں اگے پھولوں کو اپنے جسم پر لپیٹ کر ہرن کی سینگوں سے بنے کمان کو کاندھوں پر اٹھائے سمندر میں شیر کے شکار پر نکلے۔ پنجاب میں عوام نہیں پتھر کے بت بستے ہیں جو رائیونڈ کے تبلیغی مرکز کے خلاف بیان دینے پر رحمان ملک پر توغراسکتے ہیں مگر بلوچستان میں جاری روح فرساں واقعات پر پرسکون رہتے ہیں۔
صحافی سلیم شہزاد کی لاش پر ہم نے اسلام آباد میں پنجابی صحافیوں کا دھرنا دیکھا مگر علی شیر کرد اور لالہ حمید جیسے قلم کاروں کی دنیا سے اذیت ناک بے دخلی پر ہم نے خاموشی کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ بلوچ اپنا مقدمہ فرعون و نمرود کی عدالت میں بھلا کیسے پیش کریں جہاں ہردست، دست قاتل ہے، رنگین نقاب کے پیچھے چھپے مکروہ چہرے اپنے ”مکروہ عمل“ سے پہچانے جاچکے ہیں اب ان سے کوئی مفاہمت، کوئی سمجھوتہ اور کوئی دوستی نہیں ہوسکتی۔ سردار اختر مینگل کے اس مطالبے پر بھی کبھی ہنسی آتی ہے تو کبھی جگر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ پنجاب کو بلوچ قوم سے متعلق اپنا رویہ بدلنا چاہئے۔ کیا جواب ملا سردار مینگل کو اس مطالبے پر؟۔ جمعہ خان رئیسانی اور ساتھیوں کی لاش۔ یہ ہے، پاکستانی ذہن، اس کو بدلتے بدلتے کہیں ہم نہ ”بدلیں“ جائیں۔ بس بہت ہوگیا۔



Saturday, September 18, 2010

اپنے مرکز سے دور نکلتی نیشنل پارٹی

اردو زبان کے نامور ادیب جوش ملیح آبادی کو جب بھی کوئی واقعہ بیان کرنا ہوتا تو عموماً انکا انداز کچھ اس قسم کا ہوتا۔



”غصے سے تھر تھر کانپتے سورج نے اپنی تپش کے ذریعے کرہِ ارض کو جلا کر بھسم کرنے کا مکمل تہیہ کر رکھا تھا ، دو پہر پوری شدت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلارہی تھی، دن بھر کے تھکے ہارے پرندے غول کی صورت اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے، سرمئی بادلو ں سے برستی ہلکی ہلکی پھوار جوان دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کرنے کا سبب بن کر دیدار رخ یار کی طلب میں اضافہ کررہی تھی، دور سے اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹی کی ٹن ٹن وقفے وقفے سے سرد فضاﺅں میں ارتعاش پیدا کرکے پھر معدوم ہوجاتی، شاید ساربان چاندنی کا غسل کررہے ہیں، بچے اسکول اور بڑے تلاش رزق کے لیے دوڑتے نظر آرہے ہیں، ہر طرف ہوکا عالم طاری ہے لگتا ہے کسی خاتون خانہ نے چراغ محفل سے عاجز آکر شہر میں وباءیا زلزلوں کی پیشن گوئی کردی ہے، درندوں کی دھاڑ سے پورا جنگل گونج رہا تھا۔“


درج بالا اقتباس گوکہ راقم کی اختراع ہے مگر جوش ملیح آبادی کی تحریروں میں اس قسم کی تضاد بیانی جابجا نظر آتی ہے۔ غالباً اسی لیے ان کی کتاب ”یادوں کی بارات “ کو تضادات کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں( 25اگست2010ء) روزنامہ ”توار“ کے ادراتی صفحات پر نوجوان سیاسی رہنما واحد رحیم بلوچ بھی جوش ملیح آبادی کی پیروی کرتے نظر آئے۔ ایسا لگتا ہے محترم واحد رحیم کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ لکھے، غالباً اسی لیے ان کا لکھا، لکھائی کم ”لالکھائی “زیادہ محسوس ہوا۔ بے ربط جملوںاور پر تضاد خیالات سے ہم نے بڑی مشکل سے جوبرآمد کیا، وہ تھا ”اندھا کنواں“۔


مثال کے طور پر وہ فرماتے ہیں کہ ”بلوچستان آج جس سیاسی، معاشرتی انتشار، کشمکش ، بے چینی، عدم اعتماد کی کیفیت میں مبتلا ہے شاید تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا “ اس کے بعد آگے وہ اپنی بات کی نفی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ”موجودہ بحران تاریخ میں نظریات کے تصادم کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا یہ مادہ پرستی اور خیال پرستی، حقیقت پسندی اور رومانیت کے بنیادی دھارے والی نظریاتی شاخیں ہیں اور ان سرچشموں سے جنم لینے والے نظریات کے دھارے آغاز تمدن سے انسانی سماج کو متاثر کرتے آرہے ہیں“۔مذکورہ دو جملوں سے قاری کیا سمجھے؟۔ بلوچستان میں جاری کشمکش تاریخی تسلسل ہے یا اچانک پیدا ہونے والا واقعہ؟ اسی طرح ایک جگہ موصوف بتاتے ہیں کہ مولا بخش دشتی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال طبقاتی ونظریاتی تفریق کا نتیجہ ہے پھر دوسری ہی سانس میں وہ رحمان ملک کی طرح اس کو عالمی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔


بہر کیف ، واحد رحیم کے پورے اظہار یے میں بے سرو پا جملوں کے درمیان جو واضح اشارہ ملتا ہے وہ ہے بلوچستان میںجاری کشمکش بالخصوص مولا بخش دشتی کا قتل،بی ایل ایف اور نیشنل پارٹی کے درمیان لفظی جنگ، نیشنل پارٹی کی جانب سے روزنامہ ”توار“ کو نشانہ بنانے کی مبینہ دھمکیاں، روزنامہ توار کو سازشی نوٹس جاری کرنا، میرا امام بزنجو اور ڈاکٹر مالک کے درمیان جبری دوستی کا رشتہ اور بلوچ لیجنڈ ڈاکٹر اللہ نذر کے خلاف منفی پروپیگنڈہ دراصل طبقاتی تضادات کا شاخسانہ ہے۔ بقول ان کے یہ مادیت (نیشنل پارٹی)، عینیت(مخالفین)، حقیقت پسندی(نیشنل پارٹی) ، رومانیت(مخالفین) اور جدیدیت( نیشنل پارٹی) اور قدامت پسندی(مخالفین) کے درمیان جنگ ہے۔


چونکہ مذکورہ خیالات ڈاکٹر مالک، ڈاکٹر یٰسین اور طاہر بزنجو کی جانب سے بھی پیش کئے جاچکے ہیں اس لیے یہ مجموعی طور پر نیشنل پارٹی کا سیاسی نکتہ نظر ہے جس کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے۔مادیت پسند حقیقی صورتحال کا درست اور بے لاگ تجزیہ کرکے جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق متضاد قوتوں کے مخاصمانہ مفادات کا پتہ چلا کر مستقبل کی پیش بینی کرتا ہے پھر انہی نتائج کی مزید چھان پھٹک کر کے عوامی ضروریات کو سامنے رکھ کر نہ صرف ایک انقلابی لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے بلکہ مستقبل کو عوامی مفادات سے ہم آہنگ بنانے کے لیے ایک طویل نظریاتی جدوجہد کی داغ بیل بھی ڈالتا ہے۔ چونکہ ایک مادیت پسند ناکامیوں اور پسپائیوں کو کامیابی کی ماں سمجھتا ہے اس لیے وہ متوقع ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہوکر شکست تسلیم کرنے کی بجائے نظریے کے دائرے میں رہ کر خودتنقیدی کے مادی اصولوں کو بروئے کار لاکر اپنے عمل میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے تاکہ ناکامی کی کوکھ سے کامیابی کے ولی عہد کو پیدا کرسکے۔


اس تناظر میں اگر بلوچ قوم کی حقیقی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ روشن حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ بلوچ قوم معاشی طور پر بدحال، قومی تشخص سے محروم، معدومیت سے نبردآزما اور علم وہنر کے لحاظ سے مکمل تہی دست ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ۔ نیشنل پارٹی کے” مادیت پسندانہ “نقطہ نظر کے مطابق اس کی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ بلوچ کے لیے تعلیمی پالیسی بلوچ تاریخ، ثقافت، ضروریات اور نفسیات کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے؟ پھر یہ کون اور کس مقصد کے تحت بناتا ہے؟ ۔ علم ، شعور اور منطق سے آراستہ وپیراستہ نیشنل پارٹی کے وہ تمام رہنما جو اس وقت بلوچ تحریک آزادی کو مہم جوئی، سردار ساختہ ہوائی قلعہ اور طالبان جیسی شدت پسندی ثابت کرنے کے لیے مختلف کتابیں چھان رہے ہیں ان کی نظروں کے سامنے سے یقینا کوئی ایسی تحریر گزری ہوگی جس میں پاکستانی نصاب تعلیم کی تشکیل کے پیچھے چھپے مقصد کو آشکار کیا گیا ہو پھر اس مقصد کے پس پشت کارفرما مادی عوامل مثلاً پاکستان کی تشکیل، ساخت، ریاستی نظام اور ان سب کی مادی تاریخ وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ اس تمام تر مطالعے کے بعد نیشنل پارٹی کے وہ رہنما جو علمی ، شعوری اور منطقی بنیادو ںپر جمہوری وطبقاتی سیاست کے علمبردار ہیں یقینا اس ٹھوس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ پاکستان ایک جدید نوآبادی ہے جس کا اقتدار اعلیٰ اللہ کے نام پر پنجابی فوج کے پاس ہے۔ اور اس فوج کی تشکیل برطانوی مفادات کو سامنے رکھ کر نوآبادیاتی طرز پر کی گئی۔ آج یہ فوج عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے بل پر بقول عائشہ صدیقہ کے بلوچستان، سندھ، سرائیکستان اور پختونخواہ کی مجموعی زرعی وتجارتی اراضی میں سے تقریباً 45فیصد پر برائے راست کنٹرول رکھتی ہے۔چونکہ معیشت ہی سیاست یا نظام حکومت کا تعین کرتی ہے اس لیے عدلیہ، میڈیا، تعلیم، سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ الغرض تمام شعبے پنجابی مفادات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔


اب نیشنل پارٹی کے رہنما، عقل، شعور اور منطق کی بنیاد پر وضاحت کریںکہ پاکستانی نظام ونصاب تعلیم میں پنہاں قوت بلوچ کے لیے گریز کا درجہ رکھتا ہے یا مائل کا؟ اگر ا ب بھی نیشنل پارٹی کے رہنما اپنے عینیت پسندانہ نقطہ نظر کو مادیت پسندانہ قرار دینے پر مصر ہو کر کہیں کہ گوریلا جنگ سماجی شعور کی پیدائش کا اہم محرک نہیں اور بلوچستان میں چونکہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ناپید ہیں اور جو موجود ہیں سرداران کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں اس لیے بلوچ تعلیمی پسماندگی کا شکارہیں تو وہ ایک نظر کراچی اور مغربی بلوچستان پر ضرور ڈالیںجہاں پاکستان کے زیر انتظام صوبہ بلوچستان کے مقابلے میں نسبتاً بہتر تعلیمی ادارے موجود ہیں مگر کراچی میں بلوچ شناخت گینگ وار اور مغربی بلوچستان میں اسمگلر ہے۔


پاکستان کی حقیقی صورتحال کے پیش نظر چونکہ بلوچ کی تعلیمی پسماندگی سمیت اس کے تمام مسائل کی جڑ بلوچ اور پنجابی کے درمیان وہ رشتہ ہے جو مخاصمانہ مفادات پر استوار ہے اس لیے بلوچ کو بلوچ کی حیثیت سے قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ پنجابی مفادات کو نقصان پہنچا کر بلوچ مفادات کا تحفظ کیا جائے۔


اگر بالفرض نیشنل پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ پنجابی سے نیا عمرانی معاہدہ کرکے سوائے تین محکموں کے دیگر تمام بلوچ کے حوالے کئے جائیں تو بلوچ مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے تو یہاں سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کی تشکیل وساخت کا مخصوص پس منظر اور بلوچ وپنجابی درمیان موجود مخاصمانہ تضادات اس کی اجازت دیتے ہیں؟اگر بالفرض کسی خیال پسند کی مانند تمام تر تضادات کو نظر انداز کرکے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ پنجابی بلوچ درمیان نیا عمرانی معاہدہ بعید از امکان نہیں تو اس بلوچ کا کیا ہوگا جو زاہدان کے پہاڑوں اور چابہار کے ساحلوں کے قریب بیٹھا ہزار سالہ بلوچ تاریخ اور بلوچ گلزمین کی حفاظت میں روز مرتا اور روز جیتا ہے؟ کیا نیشنل پارٹی گجر بلوچ درمیان بھی ایک نئے عمرانی معاہدے کی تجویز پیش کرے گی؟ کراچی میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی فورس المعروف پیپلز امن کمیٹی کے ہاتھوں یرغمال چالیس لاکھ بلوچوں کا مذکورہ عمرانی معاہدے میں کیا کردار ہوگا؟


یہ اور اس قسم کے دیگر ضمنی سوالات کی موجودگی میں شاید کوئی خوش فہم خیال پسند بھی پاکستان کو جمہوریت کا لباس فاخرہ پہنانے اور پنجابی بلوچ کے درمیان کسی نئے (ویسے نئے کی اصطلاح بھی خوب ہے کیونکہ جہاں تک بلوچ تاریخ کا تعلق ہے وہاں پنجابی کے ساتھ عمرانی معاہدے کی بجائے جبری الحاق اور فوج کشی کا ذکر ملتا ہے )


عمرانی معاہدے کا خواب دیکھنے کی عیاشی نہیں کرے گا۔ پھر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی نیشنل پارٹی کے بزعم خود سقراط وبقراط بلوچ کو پاکستان وایران کے دائرے میں رکھنے کی کوششیں کیوں کررہے ہیں؟ سیدھے سادے بلوچ مسئلے کو اس قدر گنجلک ، پیچیدہ اور مبہم بنانے کا سوائے اس کے کوئی مقصد نہیں ہوسکتا کہ بلوچ بقا اور شناخت کے مسئلے پر نہ صرف عالمی رائے عامہ بلکہ خود بلوچ عوام کو بھی تقسیم کردیا جائے۔ ”ایک چائے کڑک ملائی مار کے“اسٹائل میں نیشنل پارٹی نہ صرف بلوچ عوام کے سماجی وقومی شعور کے ارتقائی عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کررہی ہے بلکہ وہ بلوچ قومی اداروں کی ترقی وترویج اور بلوچ رہنماﺅں کی عوامی ساکھ کو بھی اسی طرح اپنی علمی وعملی تخریب کا نشانہ بنارہی ہے جس کا اعزاز ہماری دانست میں صرف پنجابی کے پاس ہے۔


یہ صرف الزام تراشی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو کھلے عام نہ سہی لیکن تنہائی میں ضرور نیشنل پارٹی کے باشعور اور جمہوریت پسند اکابرین تسلیم کرتے ہوں گے کہ ان کا بے بنیاد نظریہ اور اس کا عملی اطلاق بلوچ مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثلاً، ایک جانب بلوچ قوم کی کم علمی کا رونا، رونا اور دوسری جانب بلوچ میڈیا بالخصوص روزنامہ”توار“کے علمی سرکل کو نشانہ بنانا، بلوچ اور پنجابی درمیان موجود حقیقی تضاد کو اصطلاحات کے گورکھ دھندوں میں چھپا کر اس کے حقیقی حل کو مہم جوئی قرار دینا، مارکسزم کو تسلیم کرنا مگر مارکسزم کے اس بنیادی اور انقلابی اصول کو کلی طور پر مسترد کرنا کہ معروضی حالات کی تشریح نہیں بلکہ معروضی حالات کو درست ادراک کرکے اسے بدلنا اصل کام ہے، پنجابی کے کلچرل حملے کو تعلیم قرار دینا مگر اس حملے کے بلوچ دفاع کو جذباتی پن اور جہالت پر معمول کرنا، بلوچ قوم، وطن اور قومی تاریخ کو خاکی پنڈی کے قدموں پر نچھاور کرکے وہاں صوبائیت کی سند پر خوشی سے پھول جانا اور پھر اس کو طریقہ کار کر اختلاف قرار دے کر شہید غلام محمد بلوچ اور مولا بخش دشتی کو ایک ہی منزل کا راہی قرار دینا، عصا ظفر کی دست کشی پر بغلیں بجانا اور ڈاکٹر اللہ نذر جیسے قابل فخر بلوچ سپوت کو اخباری بیانات وکالم کے ذریعے وحشی درندہ قرار دینے کا ناقابل معافی جرم کرنا۔


مالیاتی کرپشن کا ازالہ ممکن ہے مگر علمی کرپشن اور وہ بھی ان حالات میں جب قومی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہوں کسی بھی طرح نظر اندازنہیں کئے جاسکتے۔


میں پارٹی کے قابل احترام مگر سخت ترین نظریاتی مخالفین(کامریڈ لینن سے سوفیصد اتفاق ہے کہ نظریے پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہوسکتا) کو نہ تو غداری کا سرٹیفکیٹ دینا چاہتا ہوں اور نہ خودکو اس کا اہل تصور کرتا ہوں اس کا بہتر فیصلہ وہ بلوچ قوم کرے گی جسے نیشنل پارٹی نام ونہاد پنجابی دانشوروں سے کم تر قرار دے کر جاہلوں کا انبوہ سمجھتی ہے۔ مجھے ایمان کی حد سے بھی زیادہ یقین ہے کہ چرواہا، دہقان، مزدور، ماہی گیر، پنجابی فورسز کے ہاتھوں لٹتے، پٹتے، مرتے مگر۔۔۔۔لڑے بلوچ کبھی غلط فیصلہ نہیں کریں گے کیونکہ یہی وہ بلوچ ہیںجنہوںنے نوشیروان( نام ونہاد عادل) سے لے کر خاکی پنڈی تک ہر غاصب اور قابض کو للکار کر ہم تک بلوچ تاریخی ورثہ پہنچایا اور بلوچ قومی شناخت اور تشخص کو بچانے کا سائنسی راستہ دکھایا جس پر چل کر آج شہید غلام محمد بلوچ نے ”سائنسی وشعوری“جہد کے دعویداروںکے کردار وعمل کو طشت ازبام کردیا۔


ان کی خدمت میں ایک اردو شاعر کا شعر عرض کرتا ہوں


اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاﺅگے


خواب ہوجاﺅگے، افسانوں میں ڈھل جاﺅگے


دے رہے ہیں جو تمہیں آج رفاقت کا فریب


ان کی تاریخ پڑھو گے تو دھل جاﺅگے


اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو


سنگ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاﺅگے


خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو


دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاﺅگے


تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو


بھیڑ میں سست چلوگے تو ”کچل “جاﺅگے


Friday, June 25, 2010

ریکی کی تنہائی اور فرنٹ کی کج روی

مئی9 ,2010ء۔ایران کے زیرِ انتظام تمام کردشہروں کرمانشاہان، ایلام، سنندج، مہاباد، ارومیہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں مکمل ہڑتال ہے۔ چشم گریہ اور آتش زیر پا کرد طلباءسڑکوں پر چوراہوں پر ایرانی ریاست کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ڈریکولا صفت ایرانی حکمرانوں کو دعوت مبارزت دے رہے ہیں۔
یہی صورتحال عراق کے زیر انتظام کردستان میں بھی ہے۔ احتجاج میں یورپ نشین کرد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ روم ، برلن، فرینکفرٹ، لندن، پیرس، میڈرڈ الغرض جہاں بھی کوئی کرد تھا وہ سڑکوں پر نکلا۔
کرد مشتعل تھے فرزاد کمانگر کے لیے۔ 32سالہ فرزاد کمانگر، جو بیک وقت ایک شاعر، ٹیچر، سماجی کارکن اور صحافی ہے۔ ان کا آبائی شہر کامیاران، جس کی تعریف میں انہوںنے متعدد قصیدے لکھے، وہ شہر آج ایک دہکتے تنور کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ کیونکہ فرزاد کمانگر آج جسمانی طور پر نہیں رہا۔ انہیں ان کے 5دوستوں سمیت ایرانی جلاد صفت حکمرانوں نے پژاک (PEJAK)سے وابستگی کے الزام میں تختہ دار پر لٹکادیا ہے۔
فرزاد کی وابستگی پژاک سے تھی یا نہیں یہ تو نا معلوم ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ سرتاپاایک ”کرد“ تھا ، کردوطن کا سچا عاشق۔ وہ بہادر تھا تبھی تو جب کرد رہنما احساس فتحیان کو ایرانی عدالت نے پھانسی کا حکم سنایا تو اس مرد حرد نے عبداللہ اوجلان اور چے گویرا کی تصویروں کے ساتھ اس سزا کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔ ” یہ ہمیں ایرانی بنانا چاہتے ہیں مگر ہم ہزاروں سال سے کرد ہیں اور ابد تک رہیں گے ،یہ ہماری قومی شناخت ہے، اس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے، ہم مادیگ کے وارث ہیں جنہوںنے ایرانی سلطنت ساسانیہ کے بادشاہ اردشیر کو شکست دے کر کردستان کا دفاع کیا، کردستان ایک بے جا ن زمین کا نام نہیں وہ لہو بن کر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے“۔ بھوک ہڑتال کے بعد فرزاد کمانگر نے ان جملوں کو اپنے بلاگ میں لکھا۔
9مئی 2010ئ۔ فزاد کمانگر اپنی سرزمین پر قربان ہوگیا۔ شہید غلام محمد بلوچ، شہید اکبر ، شہید بالاچ، شہید خالد، شہید قدیر اور دیگر بلوچ شہداءکی طرح۔ کردوں نے اس فرزند وطن کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا۔
فرزاد کمانگر کی شہادت کو 40دن گزرگئے۔
20جون 2010ئ۔ ایران کے زیر انتظام تمام بلوچ شہروں زاہدان ، پہرہ (ایرانشہر) ، سراوان، گہہ (نیکشہر)، چابہار، خاش اور کنرک میں زندگی معمولی کی طرح رواں دواں ہے۔ بلوچ طلباءحصول علم ایرانی میں مشغول ہیں۔ بازاروں کی رونقیں بھی قائم ہیں۔ البتہ بعض مقامات پر چند بلوچ آپس میں آج کے واقعے پر سرگوشی کررہے ہیں، کسی نے تاسف کا اظہار کیا، کسی نے دعائے مغفرت کی، کسی نے پوچھا، اب کیا ہوگا؟سوال گونجتا رہا، جواب ماتھے کی شکنوں سے آیا، پتہ نہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں صورتحال تھوڑی سی مختلف ہے۔ آزادی پسندوں کے اتحاد بی این ایف نے احتجاج اور سوگ کا اعلان کیا ہے۔ ناروے سے خبر آئی ہے وہاں بھی احتجاج کا اعلان ہوا ہے۔
مرزا غالب یاد آتے ہیں، آپ بھی یاد کریں۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے
بلوچ منقسم ہیں مالک ریکی کے لیے۔ عبدالمالک ریکی جو شدت پسند سنی تنظیم جند اللہ کا سربراہ تھا۔ ان کا آبائی شہر زاہدان جو اپنی مزاحمتی فطرت کے حوالے سے معروف ہے پرسکون ہے، ان کا کراچی میں واقع مدرسہ بنوری ٹاﺅن جس کے مقتول سربراہ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان کے استاد اور آئی ایس آئی کے رفیق جانے جاتے تھے مکمل خاموش ہے۔ حالانکہ عبدالمالک ریکی کو ایران تختہ دار پر لٹکا چکا ہے۔ سب خاموش ہیں صرف بی این ایف غرار رہی ہے۔ عبدالمالک ریکی کو ” دانشوران ملک وملت“ محترم انور ساجدی اور قابل احترام صورت خان مری( جن کے نشتر
پہلے شہید غلام محمد اور اب اتحاد مری، خلیل بلوچ اور بشیر زیب پر خوب چلتے ہیں) بلوچ مزاحمت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے چابہار کے ساحل سے لے کر تا زابل کے ریگزار ایک
پتہ بھی نہیں ہلتا۔
بعض خوش فہم بلوچوں کا موقف ہے کہ چونکہ مغربی بلوچستان پر جبر کے سیاہ بادل کافی گہرے ہیں اس لیے احتجاج کی روشنی کا کوئی امکان نہیں۔مغربی بلوچستان کے سیاسی مزاج سے واقف افراد بخوبی جانتے ہیں کہ اس خیال میں رتی بھر صداقت نہیں۔جب بھی بلوچ قومی احساسات مجروح ہوئے ہیں۔ مغربی بلوچستان آگ بگولہ ہوا ہے۔ آج بھی اگر مولانا عبدالحمید احتجاج کی کال دیں تو ایرانی رٹ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ مگر چونکہ عزت مآب مولانا سرکاری نمک خوار ہیں اس لیے اس کی نوبت شاید ہی کبھی آئے۔پھر کیا وجہ ہے کہ فرزاد کمانگر کے برعکس عبدالمالک ریکی اپنی موت کے بعد بھی تنہا ہیں؟ہوسکتا ہے انور ساجدی ، صورت خان مری اور بی این ایف کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس دلیل ہو مگر بعض چیزیں عبدالمالک ریکی کے سفر زیست سے واضح ہیں۔ جہاں فرزاد کمانگر قومی جذبات ، احساسات ، خواہشات ، رجحانات اور مفادات کے مطابق راہ عمل ترتیب دے رہے تھے وہا ں ریکی بنوری ٹاﺅن کے مدرسے میں پاکستانی خفیہ اداروں کے نوالہ تر بننے کے مرحلے سے گزررہے تھے۔ پھر مالک ریکی اپنے ”دوستوں “ کی ہدایت پر ایک ایسے راستے پر چل پڑے ۔ جو بلوچ قومی مفاد کے ساتھ براہِ راست متصاد م تھا۔ مالک ریکی نے بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر امریکی مفادات کے حصول کو اپنا مقصد بنالیا مگر حیرت ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو ہدف تنقید بنانے والے صورت خان مری نے ان کو قومی ہیرو بنا دیا حالانکہ مالک ریکی گرفتاری سے قبل بارہا کہہ چکے تھے کہ وہ ایرانی ریاست نہیں نظام کے خلاف ہیں اور گرفتاری کے بعد وہ برسرعام امریکہ وبرطانیہ سے اپنے تعلقات کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ہم اس دلیل کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ مالک ریکی کے اعترافات شدیدتشدد کا نتیجہ تھے کیونکہ اگر تشدد اعترافات کی کنجی ہے تو شہید غلام محمد، ڈاکٹر اللہ نذر، واحد کمبر اورلاپتہ بلوچ رہنما پاکستانی اذیت گاہوں میں ناقابل بیان تشدد کے باوجود پاکستانی خواہشات کے مطابق ”اعتراف جرم“ کیوں نہ کرسکے؟؟ یا کر د رہنما عبداللہ اوجلان سے ترکی اس قسم کا اعتراف کیوں نہ کراسکا؟؟ یہاں تک کہ فرزاد کمانگر اور بلوچ صحافی یعقوب مہر نہاد بھی ایرانی جبر کے ہاتھوں اس قدر مجبور نہ ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ مالک ریکی بلوچ معاشرے میں کل بھی تنہا تھا آج بھی تنہا ہے۔
میں محترم حفیظ حسن آبادی کی اس رائے سے بھی اتفاق نہیں رکھتا کہ ایران میں سنی ہونا جرم ہے اس لیے مالک ریکی اور جند اللہ کے نظریات، خیالات اور کارروائیا ں بلاجواز نہیں۔ میں آج بھی
اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ ایران میں کرد، بلوچ ، لر اور عرب ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔ شیعہ سنی تضاد گو کہ ایران میں موجود ہے البتہ اس کی شدت وحدت قومی تضاد سے کئی سو گنا کم ہے۔ مثال کے طور پر، چابہار میں واقع جامع مسجد ایران میں سنیوں کی سب سے بڑی مسجد ہے مگر پورے مغربی بلوچستان میں ایک بھی بلوچ ثقافتی ادارہ نہیں، مولانا عبدالحمید عرصہ دراز سے سنی کونسل کے نام سے ایک فعال تنظیم کے سربراہ ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی بلوچ سیاسی وثقافتی تنظیم تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کرے، سنی کتابیں تواتر کے ساتھ شائع ہورہی ہیں مگر بلوچی کتابوں پر پابندی ہے اور یہاں تک کہ ایک سنی مولانا ایرانی پارلیمنٹ کارکن بن سکتا ہے مگر سیکولر بلوچ قوم پرست بلدیاتی الیکشن بھی نہیں لڑسکتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران سنی شیعہ تضاد کا ڈرامہ رچھا کر بلوچ گجر تاریخی وحقیقی تضاد کو چھپانا چاہتی ہے اور افسوس مالک ریکی اس معاملے میںان کے فکری دوست ثابت ہوئے۔
دوسری جانب آزادی پسند بلوچ اتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ نے مالک ریکی کو آزادی پسند گوریلا کمانڈر قرار دے کر نہ صرف اپنے بلکہ مالک ریکی اور ان کے دوستوں پر بھی ظلم کیا ہے۔ مالک ریکی کے بیانات، تقاریر اور ان کی کارروائیاں ریکارڈ پر ہیں بی این ایف کے دوست طفلانہ ضد کے دائرے سے نکل کر ایک باران کاتجزیہ ضرور کریں جو چیخ چیخ کر مالک ریکی اور ان کی تنظیم کی حقیقت بتار ہے ہیں ۔ شاید خلیل بلوچ، عصا ظفر ، براہمدغ بگٹی، وہاب بلوچ، زاہد اور بشیر زیب کو یاد نہ ہو کہ مالک ریکی کی گرفتاری کے بعد جند اللہ کے نئے سربراہ ظاہر بلوچ نے اپنے پہلے جاری پالیسی بیان میں کیا کہا تھا۔اگر یاد نہیں تو ہم ان محترم رہنماﺅں کو یاد دلانے کی جسارت کرتے ہیں۔ ”ہماری جدوجہد ایرانی شاﺅنسٹ رجیم کے خلاف ہے، ہم ایرانی قوم کو ایک آسودہ زندگی دینا چاہتے ہیں۔ ہم کرد، لر، عرب، فارس، ترک، بلوچ اور ترکمن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔“
بی این ایف بتائے ایرانی رجیم کی تبدیلی سے بلوچ قومی آزادی کا کیا تعلق؟؟؟۔اگر جند اللہ بلوچ مزاحمت کی علامت ہے جس طرح صورت خان مری، انور ساجدی، بی این ایف، بلوچ کمیونٹی ناروے، سمندر آسکانی اور دیگر ہمیں بتارہے تو جند اللہ نے بی ا ین ایف، بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے سے تعاون کی اپیل کیوں نہ کی؟؟۔ جند اللہ بی این ایف کو سرے سے اپنا دوست تسلیم نہیں کرتی مگر اس کے باوجود ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ۔“

Thursday, June 10, 2010

لیاری کا مقدمہ

لیاری آج ایک بار پھر خوفناک جنگ کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ مقابل نہ رحمان بلوچ ہے جسے پاکستانی پولیس اور میڈیا نے مشترکہ طور پر رحمان ڈکیت کے نام سے مشہور کروایا اور نہ ارشد بلوچ کہیں نظر آرہا ہے جن کو لیاری پر مسلط یوپی ، سی پی کلچر نے ”پپو “ بنادیا ہے۔ خونی جنگ میں ملوث یہ آتش زیر پااور خشمگین نو جوان گوکہ مختلف نام رکھتے ہیں مگر درحقیقت یہ ایک ہی ہیں۔ غلام قوم کے غلام فرزند، ٹھکرائے ہوئے، بہکائے ہوئے، احساس بیگانگی سے معمور، سماج کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہوئے۔

کلری، ایک ظلمت کدہ، جہاں وقار بلوچ نے پرورش پائی، وقار بلوچ ایک ٹیلنٹڈ مزاحیہ فنکار ہے مگر وہ لکھنﺅ یا آگرہ کا عمر شریف یا معین اختر نہیں، وہ بقا کی جنگ لڑتا بلوچ ہے، سوخموش ہے۔ اسی ظلمت کدے میں شب ظلمات کے دوران نور محمد بلوچ پیدا ہوا پتہ نہیں کیوں پاکستانی پولیس اسے بابا لاڈلہ کے مضحکہ خیز نام سے پکارنے پر مصر ہے۔ ”با با لاڈلہ پیدائشی مجرم ہے“ ایک خیالی پولیس اہلکار نے میرے کانوں میں سرگوشی کی۔ کیوں؟ میں نے کربناک لہجے میں پوچھا ”منشیات فروشی، ڈکیتی، چوری، قتل، اغواءبرائے تاوان، بھتہ خوری الغرض کون سا ایسا جرم ہے جو اس نے نہیں کیا “۔ اہلکار نے نفرت سے جواب دیا۔ ”یہ مکرانی ہے“ ،” مکرانی “ اس نے مزید کہا۔

میں سوچ کے دریا میں غرق ہوگیا۔ پیدائشی مجرم،،،،،،،میں دہراتا رہا۔ بلوچ وطن پر قبضہ کرکے جس نے کروڑوں بلوچوں کی زندگی برباد کردی وہ ”قائد اعظم “ ۔ پاکستانی آئین کو پیروں تلے روندنے والے ”سجیلے جوان “۔ بلوچ وطن پر بمباری کرکے ہزاروں کو قتل، لاکھوں کو بے گھر کرنے والا ”جئے بھٹو، جئے قائد عوام“ ۔ ٹیپو ٹر کاں والا اور طالبان کا سرپرست ”شیر پنجاب“ ۔ لندن نشین آدم خور ”قائد تحریک“ لیاری کی بدقسمتی کے خالق ومالک ”پاسبان ملک وملت“ ۔ مگر، بابا لاڈلہ ، پیدائشی مجرم۔

کوئی بھلا پیدائشی مجرم کیسے ہوسکتا ہے؟؟ یہ تو مادی ماحول اور معروضی حالات ہوتے ہیں جو فرد کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ شاہ بیگ لائن جہاں غلام محمد نور الدین کی سربراہی میں ان کے ساتھیوں واجہ عمر بخش، مولوی محمد عثمان، محراب خان، عیسیٰ خان، مولوی عبدالصمد سربازی، خان صاحب عثمان، پیر بخش شہداد اور اللہ بخش گبول کی کاوشوں سے بلوچ لیگ کا جنم ہوا۔ یہ وہی بلوچ لیگ ہے جس نے اولین بلوچ قوم پرست رہنما میر یوسف عزیز مگسی کی برطانوی سرکار کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف کامیاب تحریک چلائی۔ وہ 1930ءکے خوبصورت ماہ وسال تھے۔ بلوچ لیگ کی اثر پذیری کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ میر غوث بخش بزنجو جب علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تو انہوںنے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے کے لیے اسی تنظیم کو چنا۔ آج اسی شاہ بیگ لائن کا مزدور پیشہ نوجوان عبدالجبار، جھینگو کے نام سے اس خونی جنگ کا حصہ ہے۔ پرولتا یہ سے لمپر پرولتار یہ بننے کے اس پورے عمل میںپاکستانی بورژوا نے جو قبیح کردار انجام دیا کیا اس لحاظ سے پاکستانی بورژوا حکمران طبقہ اور اس کے مددگار مجرم نہیں؟؟۔ یقینا ہیں۔ مگر نوآبادیاتی پولیس کی فہرست میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

شاہ بیگ لائن کے سیاسی ماحول اور مزاج کو بگاڑ کرعبدالجبار کو جھینگو بننے پر مجبور کرنے والے ”پیدائشی مجرم مکرانی“ نہیں بلکہ اسلام آباد کے وہ پالیسی ساز ہیں جنہوںنے ہر لمحہ کنکریٹ اور شیشوں میں گھرے سرد ماحول میں بیٹھ کر لیاری کو دہکتے جہنم کے قالب میں ڈھالنے کے خوفناک مگر کامیاب منصوبے بنائے۔

”لیاری امن کمیٹی کا سربراہ سب سے بڑا غنڈہ ہے۔“نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو پاکستانی ایوان بالا میں چیخ چیخ کر دنیا کو بتارہا تھا۔ معروف بلوچ ٹرانسپورٹر فیض محمد بلوچ کا بیٹا عذیر بلوچ ٹرانسپورٹ کا شعبہ جس پر آج بھی پنجابی اور پختون کا قبضہ ہے چھوڑ کر ان تاریک راہوں کا مسافر کیوں بنا؟ ۔ حاصل بزنجو نے نہ یہ بتایا اور نہ وہ بتائیں گے۔ کیونکہ حاصل خان بزنجو کا تعلق بلوچ قوم پرستوں کے اس قبیلے سے ہے جنہوںنے بلوچ لیگ کو ترقی دینے کی بجائے اس کا شیرازہ بکھیر دیا،لیاری کو بیچ منجدھار چھوڑ کر بلوچستان کی چند سیٹوں کے حصول کوانہوںنے اپنا مقصد بنالیا، پنجاب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قومی مفادات کا سودا کیا۔ عذیر بلوچ غنڈہ کب تھا؟ اسے تو کراچی کے غنڈوں نے نگل لیا۔ بھارت سے آئی ہوئی کالی آندھی، لاڑکانہ سے اتری ہوئی آفت اور لاہور سے چلنے والی خاکی ہوائیں، بلوچ قوم پرستوں کے اس قبیلے نے لیاری کے عذیروں، رحمانوں، اور لاڈلوں کو ان غنڈوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔

نواب شاہ سے اسلام آباد تک کے مسافر زرداریوں نے ان سے سینماﺅں کے ٹکٹ بلیک کروائے، باران سے براستہ لیاری ، اسلام آباد پہنچنے والے گبولوں نے نوکریوں کا جھانسہ دے کر ان کے اذہان بھٹکائے۔ سیاسی شعور سے آراستہ وپیراستہ ظفر بلوچ کو ایسے کام پر لگادیا گیا جو در حقیقت اس کا نہیں، مگر وہ کررہاہے کیونکہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ سیاست کا رخ بدلنے کے لیے انور بھائی جان کا بت تراشا گیا کام نکل جانے کے بعد اسے بے دردی سے توڑا گیا،ناصر کریم بلوچ کو دیوار سے لگادیا گیا، پروفیسر شاہین کا مذاق اڑایا گیا، پاکستانی پارلیمنٹ کو سجدہ کرنے والے بلوچ قوم پرستوں نے ہر اس عمل کی پس پردہ حمایت کی جس سے لیاری کی تباہی یقینی ہو۔

جب غفار بلوچ ذکری نہیں تھا۔ اس وقت علی محمد محلہ اور قرب وجوار بلوچ قوم پرست سیاست کا مرکز مانا جاتا تھا، یہاں کے محنت کش بلوچوں نے سیاست کی اعلیٰ روایات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، یہاں کے نوجوان اسلم بلوچ نے منشیات مخالف تحریک کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے بی ایس او کا سر فخر سے اونچا کردیا مگربلوچ رہنماﺅں کی کم فہمی اور اسلام آباد کے پالیسی سازوں بشمول آلہ کار بھٹو کی پالیسیاں رنگ لائیں آج یہاں راکٹ برس رہے ہیں۔ لندن، نواب شاہ اور پنڈی کی جنگ کا مرکز علی محمد محلہ اور ایندھن بلوچ بن رہے ہیں۔ آزادی پسند بشمول صوبائی مختاری بلوچ قیادت حالات وواقعات کا درست اور ٹھوس تجزیہ کرنے، لیاری کا ہنگامی دورہ کرنے، عوام اور متحارب افراد سے رابطہ رکھنے کی بجائے اخباری بیانات دے کر خود کو سرخرو کررہے ہیں۔

مانا کہ لیاری پی پی گزیدہ ہے، اس کے رگ رگ میں پی پی کا پھیلایا ہوا زہر دوڑ رہا ہے، وہ بلوچ لیگ کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے مگر نواب خیر بخش مری، براہمدغ بگٹی، اللہ نذر، عصا ظفر، خلیل بلوچ، ڈاکٹر بشیر عظیم کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پی پی جاگیردارانہ مفادات کا اسیر ہے، وہ جی ایچ کیو کا پروردہ ہے، اسے صرف کراچی پر قبضہ کرنا ہے ، چاہے اس کے لیے رحمان چوہدری کے ہاتھوں قتل ہو یا انور بھائی جان نامعلوم افراد کے ہاتھوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پروفیسر صبا دشتیاری، وہاب بلوچ، کامریڈ واحد اور حنیف دلمراد بلوچ لیگ کی آخری کڑیاں ہیں یہ ٹوٹ گئیں تو سب تباہ ہوکر دریابرد ہوجائے گا۔کراچی بلوچ شہ رگ ہے اس کے خلاف جاری سازشوں کا ہر صورت مقابلہ کرنا ہوگا بصورت دیگر گل محمد لائن عارف بارکزئی، کلری اسلم بلوچ، نوالین خیر محمد ندوی، بغدادی نادر شاہ عادل، شاہ بیگ لائن جاڑک ، گولیمار ولی بلوچ، کیا ماسری ظفر علی ظفر، کلاکوٹ اصغر علی آزگ اور ریکسر لائن عبداللہ شاد اللہ جیسے نابغہ روزگار شخصیات پیدا کرنا چھوڑ دے گا۔

قاضی داد ریحان کو یہ غلط فہمی ذہن سے نکالنی ہوگی کہ لیاری کو نجات دہندہ کا انتظار ہے۔ لیاری کو نجات دہندہ بننے کی سزاد ی جارہی ہے۔ لیاری اپنے قیام سے لے کر آج تک جہدللبقا میں تنہا ہے، وہ تھک چکا ہے، لہولہا ن ہے، پھر بھی لڑرہا ہے، اگر وہ بلوچستان کو پکاررہا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ نجات دہندہ ہے بلکہ اس لیے کہ اسی کی بے وفائی نے اسے اس حال تک پہنچایا ہے۔ بلوچ قیادت نواب حمل موسیٰ کے بچگانہ ٹوٹکوں کی بجائے ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر لیاری کا مقدمہ لڑے۔ رحمان بلوچ اس لیے پیدا نہیں ہوتے کہ انہیں چوہدری قتل کریں ۔ پاکستان اور اس کے آلہ کاروں کوواضح اور دوٹوک انداز میں یہ پیغام دینا ہوگا۔

مقدمہ لڑنے کے لیے کیس کے تمام پہلوﺅں کا تفصیلی جائزہ اور جزئیات پر مکمل نظر رکھنا ہوگی۔ پیپلزامن کمیٹی کی تشکیل راتوں رات اچانک نہیں ہوئی۔ کراچی میں مہاجرین ہندوستان (اردو اسپیکنگ ، کچھی، میمن، بوہرہ، آغا خانی، بہاری) کی آمد، پختون یلغار، حکمران طبقوں( پختون، مہاجر اور پنجابی سول وملٹری بیورو کریسی)کے اندرونی تضادات ، ہارون خاندان(ڈان گروپ ) کی لیاری کو فتح کرنے کی خواہش، باران کے بلوچ جاگیردار گبولوں(ا للہ بخش گبول، عبدالستار گبول، نبیل احمد گبول ) کی ہارون خاندان اور پھر ایم کیو ایم سے چشمک ، خنجر بردار کالا ناگ اور الیاس برادران( داد محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ اور بیک محمد بلوچ) کے درمیان مخاصمت وہ عوامل ہیں جنہوںنے پیپلزامن کمیٹی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی کی سیاست ، معیشت اور انتظامیہ پر مہاجر اور پختون قابض ہوئے۔ مزدوری کے وہ پیشے جن پر بلوچوں کا تکیہ تھا وہاں سے بلوچ بے دخل کردیے گئے۔ سرکاری نوکری کا تصور محال تھا، وسیع وعریض بلوچ سرزمین کو گبولوں نے اپنی ملکیت تسلیم کرواکے مقتدرہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرکار کو بخش دی۔مہاجر، پختون، ہارون اور گبول خاندان چونکہ کراچی کے مقامی باشندے نہ تھے اس لیے وہ مقامی آبادی کے سامنے نفسیاتی لحاظ سے عدم تحفظ کا شکار تھے۔ اپنے تحفظ کے لیے انہوںنے مقامی آبادی ( بلوچ ) کی بجائے اپنے رشتے پاکستانی حکمران کلب سے استوار کئے۔ گبول خاندان کا آبائی تعلق چونکہ کیر تھر کے پہاڑی سلسلوں میں واقع باران سے تھا جبکہ ان کی سیاسی قوت کا مرکز کراچی بالخصوص بلوچ آبادی ہے اس لیے نفسیاتی طور پر وہ بلوچ سے خائف ہیں۔ بلوچ قوم کی سیاسی ومعاشی ارتکاز سے گبول سیاسی مفادات کو خطرات لاحق تھے ، یہی مسئلہ مہاجر اور پختونوں کے ساتھ تھا اس لیے انہوںنے بلوچوں کے خلاف آپس میں ایکا کرلیا۔ دوسری جانب ہارون خاندان گوکہ کسی حد تک مقامی تھا مگر ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا اس لیے ان کا انحصار بھی گبول خاندان کی طرح لیاری پر تھا۔ ہارون خاندان نے لیاری سے گبولوں کی بے دخلی کو ممکن بنانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت کی۔

لیاری کو پسماندہ رکھنے کی سرکاری خواہش کی وجہ سے لیاری شہر کے مقابلے میں کافی پیچھے رہ گیا۔ دوسری جانب لیاری پر قبضہ کرنے کے لیے ہارون خاندان نے لیاری کے راہ گم کردہ نوجوانوں کابھرپور استعمال کیا۔ یہاں سے الیاس برادران کا ظہور ہوا۔ ہارون خاندان کی سرپرستی ملنے کے بعد الیاس برادران نے غربت اور محرومی کو شکست دینے کے لیے منشیات کا دھندہ شروع کرکے اس دھندے میں پہلے سے موجود کالا ناگ کو چیلنج کردیا۔ تاہم ان کے درمیان کسی خوفناک تصادم کی نوبت نہ آئی۔ کالا ناگ کی موت کے بعد الیاس برادران کی طاقت مزید بڑھ گئی۔ ہارون خاندان ایوب خان آمریت کے خاتمے تک لیاری پر حکومت کرتا رہا۔ مگر ، پھر بھٹو آگیا۔ بھٹو کے ساتھ بلوچ قوم پرست بھی آپہنچے۔ بلوچ قوم پرستی کی جڑیں کمزور ہوچکی تھیں مگر توانائی موجود تھی۔ مقتدرہ نے بلوچ قوم پرستی کا راستہ روکنے کے لیے بھٹو کی حمایت کی گبول خاندان نے اس کو موقع غنیمت جانا۔ وہ بھٹو سے مل گئے۔یوسف ہارون پاکستان چھوڑ گیا، الیاس برادران گبول چھتری کے نیچے آگئے۔ گبول خاندان نے کھویا ہوا اقتدار پھر حاصل کرلیا مگر عوام کی حالت بہتر بنانے کا مقصد اب بھی ان کا نہ تھا۔ وجہ وہی تھی عدم تحفظ اور مقتدرہ کی خواہش۔

بھٹو کی پھانسی، ضیاءالحق کا افغان جہاد اور بلوچ قوم پرستوں کی بے وفائی۔ لیاری تنہا رہ گیا بقا کی جدوجہد میں۔ اسلحہ اور منشیات کے سیلاب نے لیاری میں تباہی مچادی۔ بھٹو کے جیالے پراسرار جمہوریت پر فدا ہونے لگے، قوم پرست کنارہ کش ہوگئے، ضیاءانتظامیہ نے ایک جانب ایم کیو ایم کے نام سے کاغذی شیر بنایا دوسری جانب لیاری کو اس سے ڈرایا، ڈرنے انور بھائی جان کے بلوچ اتحاد کو جنم دیا، سیاسی انارکی نے سماجی برائیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ حاجی لعل محمد لالو، اللہ بخش اور اقبال عرف بابو تاریک راہوں کے نئے مسافر بنے۔ الیاس برادران کی گدی کون سنبھالے گا؟ تینوں لڑ پڑے اور مقتدرہ ان کو لڑاتی رہی۔

غربت، پسماندگی، بے روزگاری اور نوآبادیاتی نظام نے بلوچ معاشرے کو شکست وریخت کی جانب لڑھکادیا۔ کوئی انقلابی سیاسی جماعت نہیں تھی جو نوجوانوں کی دست گیری کرتی نوجوان بھٹک گئے، حنیف عرف بجو لا کی طرح۔ حنیف عرف بجولا اقبال عرف بابو کا بازو بن گیا مگر حاجی لعل محمد لالو قائم رہا۔ خونی جنگ شروع ہوگئی ۔

پھر بے نظیر آئی، شادی کی، اقتدار سنبھالا، سبز باغ دکھائے، گبول خاندان کو پھر زندگی دی۔ گبول خاندان نے اقبال عرف بابو پر دست شفقت رکھا، اقبال نے پر پر زے پھیلائے، مجید بلوچ کو اسپیڈ بنادیا۔

بے نظیر دوبار اقتدار میں آئی مگر اپنی مخصوص جاگیردار انہ ذہنیت کے باعث اس نے لیاری کے سامنے چند نوکریوں کے ٹکڑے پھینکے مگر مادی ماحول کو مثبت سمت موڑنے کی کوشش نہیں کی۔ غیر صحت مند ماحول نے الیاس برادران کے جانشین کو متعارف کروایا۔ پر دہ اسکرین پر رحمان بلوچ چھاگیا۔ بھٹو پارٹی نے کراچی میں پیوستہ مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے پہلے اقبال عرف بابو پھر رحمان بلوچ کو استعمال کیا۔ بلوچ قوم پرستی کا راستہ روکنے کے لیے پاکستانی سول وملٹری بیوروکریسی نے رحمان بلوچ کو مزید تراشا۔ رحمان بلوچ نے ایک خونی لڑائی کے ذریعے اپنے مخالفین حاجی لعل محمد لالو اور اقبال عرف بابو کا تختہ الٹ دیا۔

رحمان بلوچ کو غلط فہمی ہوگئی کہ اس کی طاقت اس کی اپنی ملکیت ہے اس لیے اس نے اپنی طاقت کو سماجی کاموں میں استعمال کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ کراچی میں بلوچ قوت کا نمائندہ بن سکے۔ اس نے اسٹریٹ کرائمز کا خاتمہ کردیا، تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی، تفریحی پارک بنوائے، غریبوں کی امداد کی اور سب سے بڑھ کر کراچی کے دیگر علاقوں کی جانب پیش قدمی کی۔ رحمان بلوچ کی ان پالیسیوں کے باعث بلوچ قوم پرست باالخصوص بی این ایف میں شامل اتحادی جماعتوں کو منظم ہونے کا موقع مل گیا۔ لیاری میں بلوچ لیگ کے زندہ ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔ یہ صورتحال نہ صرف مقتدر طاقتوں بلکہ بھٹو پارٹی کے لیے بھی ناقابل قبول تھی۔

بالآخر لیاری مخالف اتحاد نے رحمان بلوچ کو راستے سے ہٹادیا۔ چونکہ رحمان بلوچ ایک انقلابی نہیں بلکہ عمل کا ردِ عمل تھا اس لیے اس کے بعد اس کی بنائی ہوئی پیپلز امن کمیٹی اپنی سابقہ ہیئت برقرار نہ رکھ سکی اور اس میں متعدد شگاف پڑگئے جس سے اس کی مضبوط بارگیننگ پوزیشن کمزور پڑگئی۔ گوکہ لیاری مخالف اتحاد اپنے مقصد میں تو کامیاب ہو گئی مگر وہ اپنے اندرونی تضادات پر قابو نہ پاسکی۔ حکمران طبقے کے اندرونی تضادات سانحہ علی محمد محلہ کا موجب بنے۔ لیاری مخالف اتحاد کے پیوستہ مفادات کی جنگ نے کلری کی زمین کو تانبہ بنادیا۔ آثار بتارہے ہیں غفار بلوچ کو بے دخل کردیا جائے گا۔

مگر پھر کیا ہوگا؟ ۔ جنگ ختم؟ یقینا نہیں، متضاد مفادات کے حامل گروہوں کے درمیان معاشی بالادستی کی جنگ جاری رہے گی جس طرح سرمایہ دار دنیا میں کبھی افغانستان ، کبھی عراق تو کبھی فریڈم فرٹیلا جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ گوکہ اس مفاداتی جنگ کا خاتمہ بلوچ قومی آزادی سے مشروط ہے مگر لیاری کو اس جنگ کا ایندھن بننے سے بچانا ہوگا۔ جو بلوچ نوجوان اس راہ پر نکل چکے ہیں ان کی واپسی ممکن نہیں۔ چاہے اس کے لیے نواب حمل موسیٰ کے ٹوٹکے ہی کیوں نہ استعمال کئے جائیں۔

اس وقت ضرورت عوام سے رابطہ کرنے کی ہے جو سیاسی تنہائی کا شکار ہےں۔30سال کا کچرا 30دن میں صاف نہیں ہوسکتا۔ پیپلز امن کمیٹی سے تصادم بلوچ دشمن قوتوں کو تقویت پہنچائے گا اس لیے ان سے تصادم سے گریز کرکے سیاسی کارکنوں کی تربیت پر دھیان دینا چاہیے تاکہ وہ عوام کو انقلابی خطوط پر منظم کرسکیں۔ قاضی داد ریحان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ بی این ایم کے سو ارکان حالات بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، انقلابی جماعتوں کے 10ارکان معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ انقلابی ہتھیاروں سے لیس ہوں۔ بلوچ رہنما لیاری کو بلوچستان سے علیحدہ کرکے دیکھیں وہاں کی طرز معاشرت، عوامی مزاج، معاشی وسیاسی مسائل کوئٹہ، تربت ، خضدار اور گوادر سے یکسر مختلف ہیں۔ لیاری کو اس وقت طویل المدت حکمت عملی کے مطابق نظریاتی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ کسی مہم جوئی کی نہیں۔



Saturday, May 1, 2010

ناظمہ طالب کی ہلاکت اور بلوچ کوڈ آف آنر

اردو زبان کے معروف شاعر ن،م راشد نے ہندوستان پر برطانوی قبضے کے خلا ف ایک طویل احتجاجی نظم لکھی ہے۔اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ ”ہندوستان پر برطانوی قبضہ ناجائزہے، ہمارے نوجوان قتل کئے جارہے ہیں، خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے، ہماری حالت جانوروں سے بدتر بنادی گئی ہے، ایک دن میں نے برطانیہ سے بدلہ لینے کی ٹھانی۔ ” میں نے ایک انگریز افسر کی بیٹی کو اغواءکرلیا پھر ساری رات اس سے” بدلہ“ لیتا رہا۔“
ن ۔ م راشد کے ان خیالات نے اردو ادیبوں کو چونکا دیا۔ بعض نے اسے غیر انسانی اور غیر اخلاقی قرار دے کر اس کی شدید مذمت کی جبکہ بعض نے اسے ایک تہی دست غلام کا فطری ردِ عمل قرار دیا۔راشد درست ہے یا غلط اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ آفاقی اخلاقیات کا دنیا میں کوئی وجود نہیں۔
بنگلہ تحریک کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب جنرل نیازی کے ” دلیر“ اور”بہادر“سپاہی مجبور اور نہتی بنگالی خواتین کو اپنے ”فلسفہ مردانگی“کے عملی اسباق پڑھارہے تھے تو مکتی باہنی کے سر پھرے نوجوانوں نے آئزک نیوٹن کے تیسرے قانون پر عمل کرتے ہوئے اپنا ردِ عمل بہاری خواتین پر ظاہر کیا۔مکتی باہنی کا وہ نوجوان جس نے بچپن سے یہی سنا تھا کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے، جس نے ہمیشہ خود کو اپنی لاڈلی بہن کا محافظ سمجھا جب اپنی جنت کو مسمار ہوتا دیکھے یا اپنی باہوٹ بہن کی عزت کو سرِ بازار نیلام ہوتا سنے تو زخمی احساسات اور مجروح جذبات کے حامل اس نوجوان کا فطری ردِ عمل کیا ہوگا؟“ کیاتہذیب، اقدار وروایات اور اخلاقیات انسانی فطرت سے زیادہ پراثر ہوتے ہیں؟فیصلہ پھر قارئین پر چھوڑتے ہیں۔
مذکورہ بالادوواقعات پر غورو فکر کے بعد کوئٹہ چلتے ہیں جہاں گزشتہ دنوں نوآباد کار قوم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون پروفیسر بلوچ لبریشن آرمی کے غیض وغضب کا نشانہ بنی۔نواب اسلم رئیسانی، نواب ذوالفقار مگسی، نوابزادہ جمیل بگٹی اور حاجی لشکری رئیسانی سمیت پاکستان بھر کے سیاستدانوں نے اس قتل کی مذمت کی۔ لشکری رئیسانی نے قاتلوں کو ”بے غیرت“نوابزادہ جمیل بگٹی نے ”بزدل “ اور اسلم رئیسانی ونواب مگسی نے اس فعل کو بلوچ روایات کے منافی قرار دیا۔
اس صورتحال کی وجہ سے بلوچ آزادی پسند بھی منقسم نظر آتے ہےں۔چونکہ سیاسی جماعتیں اور میڈیا رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اس لیے بلوچ جماعتوں کی خاموشی کے باعث نوابزادہ جمیل بگٹی، نواب رئیسانی ، نواب مگسی ، پاکستانی جماعتوں اور میڈیا نے مل کر بلوچ رائے عامہ کو خاتون پروفیسر کے حق میں ہموار کردیا۔ بلوچ معاشرے میں یہ عمومی تاثر پھیل چکا ہے کہ خاتون پروفیسر ناظمہ طالب کا قتل بلوچ قومی روایات ، اقدار اور ثقافت کی خلاف ورزی ہے۔غیر منطقی اور بودے دلائل پر مشتمل احمقانہ بیانات نے بی ایل اے کو محرم سے مجرم بنادیا ہے۔
بالفرض اگر آزادی پسندوں کی اس رائے کو مان لیا جائے کہ خاتون کا قتل بلوچ اخلاقیات کے مطابق جائز نہیںتو پھر آباد کار کے گھر پردستی بم حملوں کو کس خانے میں فٹ کیا جائے گا؟؟۔گھربھی تو بلوچ اخلاقیات میں ”مقدس“ہوتا ہے پھر گھر پر حملے کی صورت میں گھرمیں موجود تمام افراد نشانہ بن سکتے ہیں ۔ جن میں یقینا خواتین، بچے اور بوڑھے بھی ہوں گے تو کیا اس کو بھی ناجائز قرار دیا جائے؟؟۔ آباد کار حجام، دھوبی، نائی اور مزدور بھی بظاہر”معصوم “ ہوتے ہیں ان کا کیا کیا جائے؟؟؟یہ اور ان جیسے تمام اقدام اگر ناجائز تصور کرلیے جائیں تو بلوچ وطن میں آباد کاری روکنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟؟۔بلوچ عرصہ دراز سے آباد کاروں سے بلوچستان چھوڑنے کی اپیل کررہے ہیں اس کے باوجود وہ ہمارے سینوں پر مونگ دلنے سے باز نہیں آتے تو بلوچ آخر کرے تو کیا کرے؟؟۔ تحریک آزادی سے وابستہ وہ افراد جو ناظمہ طالب کے قتل پر افسردہ اور شرمندہ ہیں وہ نہ صرف ان سوالات کے جوابات تلاش کریں بلکہ ہمیں بھی آگاہ کریں۔
جہاں تک پاکستانی سیاست سے منسلک بلوچ شخصیات اور کنفیوژن کے شکار جمیل بگٹی کے مخالفانہ بیانات وخیالات کا تعلق ہے اگر ان کو انتہا کی منافقت اوربدنیتی قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔ اسی کوئٹہ میں جہاں ناظمہ طالب ہلاک ہوئیں وہاں چند دنوں قبل ایک ضعیف العمر بلوچ خاتون فورسز کی ”بہادری “ کی مثال بنی لیکن اس وقت پاکستانی میڈیا سمیت تمام بلوچ اراکین پارلیمنٹ نے چپ سادھ لی۔ کیا بلوچ خواتین کے قتل پر بلوچ روایات لاگو نہیں ہوتے؟؟ جب معصوم شہناز بلوچ آغاز خان ہسپتال میں ایڑیا رگڑ رہی تھیں اس وقت ”ثناءخوان تقدیس روایات“ کہاں تھے؟؟
زرینہ بلوچ جیسی ان گنت بلوچ خواتین کی بے توقیری پر محترم لشکری رئیسانی کی ”غیرت “ خواب غفلت سے بیدار کیوں نہیں ہوتی؟ پیاسی یاسمین کی لہو لہان لاش پر تو کسی کا دل نہیں پسیجا۔ پھر آباد کار ناظمہ طالب پر ہاہا کار کیوں؟؟۔کریمہ بلوچ کا بلوچی سر ناظمہ طالب سے کم اہم ہے جس پر غیر ملکی فورسز ڈنڈے برساتے ہیں تو اسلم رئیسانی بزدلی کا طعنہ دینا بھول جاتے ہیں۔
غصہ عین انسانی فطرت ہے۔ غصے میں آکر فرط جذبات میں انتہائی قدم اٹھانا کوئی خامی نہیں۔ سرزمین پر قبضہ، ماں بہنوں کی بے توقیری، دوستوں پر تشدد اور ان کا قتل اگر کسی کو ان عوامل پر غصہ نہ آئے تو وہ بااخلاق نہیں بے حس ہوتا ہے۔ پھر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلوچ اس وقت من حیث القوم حالت جنگ میں ہے۔ جنگی اصول اور روایات مروجہ اصول وروایات سے نہ صرف مختلف ہوتے ہیں بلکہ موقع محل اور دشمن کی نفسیات کی مناسبت سے ان میں ردوقبول کا عمل بھی مسلسل جاری رہتا ہے۔ مستقبل کی آزاد بلوچ ریاست میں پنجابی خاتون ایک طرف پنجابی مرد کا قتل بھی یقینا ناجائز تصور کیا جائے گا اور اس کے مرتکب کو سزا بھی دی جائے گی مگر موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں۔ جس طرح جدید ریاستوں میں جنگی حالت کے اعلان بعدبنیادی انسانی حقوق معطل کردیے جاتے ہیں، اسی طرح آج کے پر آشوب دور میں بعض معاملات کو نظر انداز کرنا لازمی ہے۔ بلوچ کوڈ آف آنر کی پاسداری یقینا ہر بلوچ کا قومی فرض ہے جس کی تلقین محترم انور ساجدی اپنے کالم ”آئینہ“ ( روزنامہ انتخاب ، یکم مئی 2010) میں کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر انور ساجدی صاحب دانستہ یا نادانستہ طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کرگئے کہ بلوچ قبائلی جنگوں کے دوران اگر کوڈ آف آنر کا خیال رکھا جاتا تھا تو اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ فریقین نہ صرف کوڈ آف آنر کو سمجھتے ہیں بلکہ اس کو تسلیم بھی کرتے ہیں مگر اس وقت بلوچ جس سے نبرد آزما ہے وہ بلوچ کوڈ آف آنر تو درکنار سرزمین پنجاب کی روایات واقدار سے بھی عاری ہے۔ اس چیز کو ایک اوسط ذہنیت کا حامل فرد بھی سمجھتا ہوگا کہ مرغی اور اونٹ کو ذبح کرنے کا طریقہ الگ الگ ہوتا ہے۔ جہاں غلام محمد اور ان کے ساتھیوں کی میتیوں کو مسخ کرکے ان کی بے حرمتی کی جائے، رسول بخش مینگل کو تشدد کا نشانہ بناکر درخت سے لٹکادیا جائے، ذاکر مجید، ڈاکٹر دین محمد، جلیل ریکی، محبوب واڈیلہ اور بوہیر بنگلزئی سمیت سینکڑوں افراد کی ماں بہنوں کو زندہ درگور کردیا جائے، اکبر وبالا چ کو بے دردی سے چھین لیا جائے وہاں اعتدال کی تلقین زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک کا کلیجہ پھٹ گیا دوسرا کہتا ہے صبر کرو۔
ایک انسان ہونے کے ناطے مجھے ناظمہ طالب کے اہلِ خانہ سے مکمل ہمدری ہے۔ یقینا وہ بھی کسی کی ماں، بہن، بیٹی، بھابھی اور ساس ہوں گی۔ ان کی میت وصول کرتے وقت ان کے ورثاءجس کربناک صورتحال سے دوچار ہوئے اس کا احساس ہمیں بھی ہے۔مگر ان کے اہلِ خانہ کو لمحہ بھر تو قف کرکے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔ بلوچ بے رحم اور وحشی نہیں جو بلاوجہ قتل کرتے پھریں۔ ناظمہ طالب کے ورثاءاس قتل کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں۔ پنجاب اور پنجابی کے نام پر بلوچ وطن پر قبضہ کیا گیا۔ قبضے سے لے کر آج دن تک ان کا استحصال کیا جارہاہے، اس قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے کبھی مسلح دفاعی تنظیم بناکر نوجوانوں کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں تو کبھی غیرت کا نام لے کر بلوچ خواتین پر تیزاب پھینکے جاتے ہیں بلوچ وطن کے انمول فرزندوں ودختروں کو رزق خاک بنایا گیا اور ان تمام مظالم پر پنجابی خاموش رہے۔ پنجابی عوام نے ہمیشہ بلوچ وطن پر پاکستانی قبضے کو درست سمجھا اور بلوچ پر ہونے والے مظالم کی حمایت کی اگر پنجابی اپنے حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ بلوچستان پر سے اپنا قبضہ ختم کریں بلوچ قتل عام فی الفور بند کردیں تو یقینا آئندہ کوئٹہ کی سڑکوں پر کوئی ناظمہ طالب نشانہ نہیں بنے گی۔ یہی بلوچ کوڈ آف آنر ہے۔

Saturday, March 20, 2010

مجید بلوچ کی شہادت

فرد اہم نہیں ہوتا اس کا وہ کردار اور عمل اہم ہوتا ہے۔جو وہ ایک خاص نظریے اور مقصد کے تحت انجام دیتا ہے۔ نظریہ مقصد کی تشکیل کرتی ہے اور مقصد کا حصول عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔مقصد اور نظریہ سے عاری زندگی اس صحرائی جھاڑی کی مانند ہوتی ہے جو نہ تو کسی مسافر کو سایہ فراہم کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کے شکم کا بوجھ بانٹ سکتا ہے۔عظیم انسان وہ ہوتے ہیں جو جبر، استحصال اور انسان کے ہاتھ انسان کی غلامی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ شمع امید کے ہتھیار سے ظلما ت کو شکست دے کر نوید سحر دیتے ہیں۔ یہی انسان تاریخ کا روشن باب بن کر اساطیر کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اسپارٹکس سے لے کر شہید غلام محمد تک تاریخ پر ایسے ہی لوگوں نے راج کیا ہے۔ میں اس فرد سے واقف نہیں جس کی لاش وحدت کالونی کے کھیتوں میں پڑی ہے جس پر ایک دہشت زدہ تنخواہ دار وردی پوش پہرہ دے رہا ہے۔میرے لیے یا شاید آپ کے لیے بھی یہ جاننا اہم نہیں خون میں لت پت یہ انسان کون ہے کیونکہ فرد اہم نہیں ہوتا اس کا وہ کردار اور عمل اہم ہوتا ہے جو وہ ایک خاص نظریے اور مقصد کے تحت انجام دیتا ہے۔ہم جانتے ہیں وہ انسان جسے مجید بلوچ کے نام سے شناخت کیا جارہا ہے ایک اعلیٰ مقصد اور نظریے پر قربان ہوا۔ وہ تاریکی کی قوتوں سے لڑتا رہا ہمیں روشنی دینے کے لیے وہ ہم گمنام افراد کے مجموعے کو بلوچ شناخت دینے کے لیے مصروف جہد تھا۔ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔یہی کافی ہے کسی کو سمجھنے اور جاننے کے لیے آئیے! دیکھتے ہیں ہم غلاموں کے دوست کے ساتھ درحقیقت ہوا کیا تھا۔
سب سے پہلے ایف سی نے اخبارات کو ایک پریس ریلیز جاری کی۔ اس کے مطابق ”ایف سی کی گشتی پارٹی معمول کے مطابق بروری روڈ پر گشت کررہی تھی کہ اچانک نامعلوم مسلح افراد نے ایف سی کی گشتی گاڑی پر دستی بم سے حملہ کیا اور فائرنگ شروع کردی جس سے ایف سی کے 4اہلکارزخمی ہوگئے جبکہ ایف سی کی جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور مارا گیا دیگر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے”اس پریس ریلیز کے چند گھنٹوں بعد غزہ بند اسکاﺅٹس کے کمانڈنٹ کرنل شہزادہ عامر نے میڈیا کو بتایا کہ ”ایک گھر سے ایف سی پرفائرنگ کی گئی ایف سی نے پوزیشنیں سنبھال کر اس مکان کو گھیرلیا۔ کرنل عامر کے مطابق ایف سی اہلکار سامنے سے اندر داخل ہوئے جبکہ حملہ آور پیچھے سے فرار ہوگئے۔بقول ان کے حملہ آوروں کاایک ساتھی مکان سے کچھ فاصلے پر کھیتوں میں جاتا دکھائی دیا۔ ایف سی نے اس پر فائرنگ کی اور وہ ہلاک ہوگیا۔
ایف سی کے دونوں بیانات کے درمیان تضاد واضح ہے۔ پہلے بیان میں گاڑی پر حملہ اور جوابی فائرنگ کی کہانی بیان کی گئی جبکہ بعدمیں ایک مکان کا قصہ شروع کردیا گیا۔ چونکہ دوسرا بیان ایف سی کے ایک ذمہ دا ر افسر کی جانب سے سامنے آیا اس لیے فی الحال اپنی توجہ اس پر مرکوز کرتے ہیں۔
کرنل عامر بتاتے ہیں مکان کو ”گھیرے“ میں لیا گیا مگر دوسری سانس میں وہ پہلی بات بھول کر حملہ آور کو پچھلے راستے سے فرار ہوتے دکھاتے ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آتا گھیرے میں لینے کا مطلب کیاہوتا ہے۔ اگر مکان گھیرے میں تھا تو وہاں سے کسی کا آسانی سے فرارہونا ممکن نہیں اس کے لیے گھیراﺅ تو ڑنا لازمی ہے۔اگر گھیراﺅ توڑا گیا تو ایف سی اہلکاروں کو یقینا جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہوگا لیکن کرنل عامر نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ کرنل عامر کی تضاد بیانی صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ان کے مطابق حملہ آور وںکا ایک ساتھی کھیتوں میں جارہا تھا ایف سی اہلکاروں نے ان کو دیکھ کر فائرنگ کردی۔ عالمی قوانین کے مطابق ایک فرار ہوتے ملزم کو خبردار کرنا لازمی ہے اس کے لیے عمومی طور پر ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا جاتا ہے اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو آخری حربے کے طور پر ملزم کو زخمی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب اگر کرنل شہزادہ عامر کی گفتگو سنی جائے تو وہاں مکمل رعونت ملتی ہے۔ کثیر القومی ریاست کے علمبردار نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں وکارکنوں کے لیے صرف اس ایک جملے میں بہت کچھ پوشیدہ ہے کہ ”ہم نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا“یہاںکرنل عامر نے بلوچ پاکستان رشتے کو واضح کردیا ہے ۔
خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ وگرنہ ”ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت“ پھر آتے ہیں کرنل عامر کی طرف۔ فرماتے ہیں فرار ہوتے حملہ آور پر فائرنگ کی گئی گویا ان کو پیچھے سے نشانہ بنایا گیا لیکن اخبارات نے جو تصاویر جاری کیں ان کو دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ بلوچ قومی ہیرو نے بلوچ سنت پر عمل کرتے ہوئے دشمن کی گولیاں اپنے سینے پر برداشت کی ہیں۔ چونکہ شہید کو گولیاں سامنے سے لگی ہیں اس لیے کرنل عامر پر مزید اعتبار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یقینا شہید مجید نے غلامی کے خلاف لڑنے لڑتے اپنی جان دی۔ اس کی تصدیق بی ایل اے کے ترجمان میرک بلوچ کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ بی ایل کے مطابق ہزاروں بزدل فورسز نے شہید مجید بلوچ کو گھر کے اندر گھیر کر گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر شہید نے مقابلہ کرکے جام شہاد ت نوش کیا۔گویا ایف سی کا مقصد انکو زندہ گرفتار کرنا تھا مگر شہید مجید بلوچ نے قوم کا سرنیچا نہ ہونے دیا اور مقابلہ کرکے شہید ہونا پسند کیا۔ کاش جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی بھی اس جرات کا مظاہرہ کرتے کم از کم آج گجر کو ہم پر ہنسنے کا موقع تو نہ ملتا۔
اس پورے منظر نامہ میں ایک چیز واضح نہیں ہوتی وہ یہ کہ شہید مجید بلوچ تنہا تھے یا ان کے ساتھ دیگر فکری دوست بھی اس خونی معرکے میں شامل تھے۔ ایف سی کمانڈنٹ جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنا اعتبار کھوچکے ہیں اس لیے مجبوراً ہمیں بی ایل اے سے رجوع کرنا پڑے گا مگر بی ایل اے بھی اس حوالے سے مکمل خاموش ہے۔بی ایل اے نے غالباً اس لیے دیگر سرمچاروں کا تذکرہ نہں کیا کیونکہ پھر اس سے ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں یا شاید مجید بلوچ واقعی اس وقت تنہا تھے۔ شہید مجید بلوچ اگر اکیلے لڑرہے تھے تو ہمیں ان کی دلیری اور بہادری کو ”سرخ سلام“ پیش کرنا ہوگا اور اگر ان کے ساتھ دیگر دوست بھی تھے۔ اور انہوںنے خود کو قربان کرکے اپنے فکری ساتھیوں کی قیمتی جان بچائی تو ان کے اس ایثار اور قربانی کو میں چاہتے ہوئے بھی بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس جذبے کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں بس محسوس کرسکتے ہیں ہم اس کو۔
ایف سی کی تضاد بیانی قابل ملامت نہیں بلکہ قابل رحم ہے کیونکہ وہ مجید بلوچ کو شہید کرنے کے باوجود ان کے نظریے کو شکست دینے میں ناکام رہی۔ دوسری جانب ایف سی کی تضاد بیانی کے حوالے سے دلچسپ واقعہ بلوچستان اسمبلی میں پیش آیا۔ رکن بلوچستان اسمبلی آغا عرفان کریم نے معصومیت سے کہا کہ ہم نے ایف سی کو اپنی حفاظت کے لیے بلایا مگر وہ ہمارے ہی لوگوں کو ماررہی ہے۔ اب کوئی اس گم کردہ راہ سے پوچھے ایف سی کو آپ نے کس سے کس کی حفاظت کے لیے تعینات کیا؟؟؟۔ ملک آپ کا ، لوگ آپ کے، حفاظت غیر ملکی ایف سی کرے گی۔ جان کی امان پائے بغیر آغا صاحب سے پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ جناب آپ کو کس سے خطرہ ہے جس کا مداوا ایف سی ہے؟ ۔ آغا عرفان کریم نے غالباً بلوچستان اسمبلی کے ماتمی ماحول کو زعفران زار بنانے کے لیے اس لطیفے کا سہارا لیا ہوگا۔

مالک ریکی کی گرفتاری کا معمہ

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد جب امریکہ نے افغانستان کے پہاڑوںکو سرمہ بنانے کا عمل شروع کرکے مذہبی شدت پسندوں کو نئی زندگی دی تو اسی دوران زاہدان سے تعلق رکھنے والے مذہبی شدت پسند عبدالمالک ریکی کا ظہور ہوا۔ مالک ریکی کی تنظیم جند اللہ نے ایرانی فورسز، سرکاری ملازمین اور گجر شیعوں پر خوفناک حملے شرو ع کردیے۔ زاہدان میں پاسداران انقلاب کی بس، مسجد امیر المومنین، تاسوکی میں ایرانی ملازمین، نوبندیان میں سرکاری عہدیدار اور پشین میں پاسداران انقلاب وہ اہداف ہیں جنہوںنے ایرانی ملاﺅں کی راتوں کی نیندیں حرام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دینی مدرسوں کے پیدوار تیس سالہ مالک ریکی کے بارے میں ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کو امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ البتہ ان تینوں نے ہمیشہ اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ گوکہ ایران اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے میں کبھی کامیاب نہیں رہا تاہم بعض ایسے حالات وواقعات ضرور سامنے آئے جنہوںنے ایران کے الزامات کو ایک حد تک درست ثابت کروایا لیکن چونکہ ٹھوس ثبوت کبھی منظر عام پر نہ آسکے اس لیے ایران کا الزام ہمیشہ الزام کے دائرے میں مقید رہا۔
دوسال قبل شدید ایرانی دباﺅ کے باعث پاکستان نے مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی کی گرفتاری ظاہر کی۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق حمید ریکی کو پاکستانی خفیہ اداروں نے گفت وشنید کے بہانے دھوکے سے گرفتار کیا تاکہ ایرانی دباﺅ کم کی جاسکے کیونکہ ایران نے سنجیدگی سے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے تعاون نہ کیا تو ایران از خود کارروائی یا گرم تعاقب سے گریزنہیں کرے گا۔ دومہینے تک ایران، پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں مذاکرات ہوتے رہے بالآخر طویل مذاکرات کے بعد بعض سمجھوتوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ عبدالحمید ریکی کو اسلام آباد سے تہران پہنچادیا گیا۔
ایرانی انٹیلی جنس کے مختلف تفتیشی مراحل سے گزرنے کے بعد جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی نے ایرانی میڈیا پر آکر متعدد واقعات کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ مالک ریکی کو عالمی قوتوں کی مدد وحمایت حاصل ہے۔ حمید ریکی نے میڈیا کے ذریعے ایرانی عوام سے معافی
مانگ کر جند اللہ سے تعلق پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ حمید ریکی چونکہ ایرانی انٹیلی جنس کے زیرِ حراست تھے اس لیے ان کے اعترافات اور ظہار شرمندگی کو شدید تشدد کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم حمید ریکی کی گرفتاری نے ایران کے حوصلوں کو کسی قدر بلند کردیا۔
ایران کی خوش فہمی زیادہ دیر تک برقرا رنہ رہی مالک ریکی نے جلد اپنی توانائیوں کو مجتمع کرکے پہلے سراوان چھاﺅنی پھر پشین میں پاسداران انقلاب کو خود کش دھماکوں میں اڑادیا۔
پشین دھماکے نے ایران کو لرزا دیاکیونکہ مذکورہ دھماکے میں طاقتورترین ایرانی فورس پاسداران انقلاب کے اہم ترین کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایران نے جوابی طور پر مشرقی ومغربی بلوچستان کی سرحد بند کردی اور ایک بار پھر پاکستان کو گرم تعاقب کی دھمکی دی گئی۔ ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی اور وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی نے یکے بعد دیگرے پاکستان کے دورے کئے۔پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملاقات میں ایرانی حکام نے سخت موقف اپنایا اور ایک بار پھر مالک ریکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا آمدہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے معذوری ظاہر کی یوں یہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ البتہ گاہے بگا ہے ان نکات پر ایران وپاکستان کے درمیان بات چیت
جاری رہی۔
فروری 2010ءکو امریکہ نے ایران، پاکستان سرحد سے متصل افغان بلوچ علاقے ہلمند میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے ایران کا تعاون ناگزیر تھا اس لیے ایک بار پھر کابل میں ایران وامریکہ کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ دوسری جانب ایران نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی شروع کردیں۔ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی حکام کو باور کرایا کہ اگر مغربی بلوچستان میں امریکی ایماءپر جند اللہ کی کارروائیاں جاری رہیں تو ایران افغانستان میں عدم تعاون کی پالیسی اختیار کرسکتا ہے جس سے یقینا بھارتی مفادات کو بھی زک پہنچے گی۔ چونکہ مغربی بلوچستان میں بھارتی مفادات پیوست ہیں جن کا دائرہ افغانستان تک پھیلا ہوا ہے اس لیے بھارت نے ایران کو اس حوالے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
کابل میں امریکی وایرانی حکام کے درمیان جاری مذاکرات میں بھارت ، نیٹو اور سعودی عرب کو بھی شامل کرلیا گیا۔اس مذاکرات میں کیا گفتگوہوئی اور کن کن معاملات پر اتفاق کیا گیا؟ سر دست یہ واضح نہیں البتہ 23فروری 2010ءکو مالک ریکی کی گرفتاری کے اعلان کو ان مذاکرات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کی گرفتاری بلاشبہ تاحال ایک معمہ ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس نے جو ویڈیو جاری کی اس کے مطابق مالک ریکی کو نقاب پوش ایرانی اہلکار ایک جہاز سے اتاررہے ہیں۔ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس ریکی بالکل ہشاش بشاش نظر آرہے ہیں۔ ان کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور وہ اچھے بچوں کی طرح جہاز سے اترتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جہاز سے جب وہ اترتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی نظر آتی ہے جبکہ جہاز میں وہ بغیر ہتھکڑی کے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ایک معمہ ہے کہ مذکورہ ہوائی جہاز میں مالک ریکی کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا تو کیا یہ کوئی چارٹر ہوائی جہاز تھا؟ ۔ اگر یہ کوئی چارٹر ہوئی جہاز تھا تو مالک ریکی کو یہ سہولت کس نے فراہم کی؟پھر اس چارٹر جہاز کی اطلاع ایرانی انٹیلی جنس ذرائع کو کس نے دی؟ ۔کیا ایسا ہوسکتا ہے ایران ایک اڑتے جہاز کو زمین پر اترنے پر مجبور کرکے فضائی قوانین توڑ دے اور امریکہ خاموش رہے؟دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مالک ریکی جہاز کے ذریعے پاکستان کے راستے ایک عرب ملک جارہے تھے ایرانی حکام نے خلیج فارس میں جہاز کو اترنے پر مجبور کیا اور جہاز کی تلاشی کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا جبکہ وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی ایک الگ کہانی سنارہے ہیں ان کے مطابق ریکی کو ایران کے باہر سے ایک طے شدہ آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر ماشاءاللہ شاکری اور ایرانی سرکاری ٹی وی ان کی گرفتاری زاہدان سے ظاہر کررہی ہیں۔ بہر کیف مالک ریکی اور جند اللہ کی طرح ان کی گرفتاری بھی ایک معمہ ہے۔
جند اللہ نے اپنے بیان میں جو الزام لگایا ہے وہ بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ جند اللہ کے مطابق جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کو یورپی، افغان اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے گرفتار کرکے ایران کے حوالے کیا ہے۔ جند اللہ کے اس الزام کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان مسئلے کے تناظر میں امریکہ نے پاکستان کے ذریعے ایران کے بعض تحفظات ختم کرنے کے لیے مالک ریکی کا پتہ صاف کروایا۔ اس دلیل کی حمایت ایران کے اس الزام میں بھی پوشیدہ ہے کہ مالک ریکی گرفتاری سے قبل امریکہ کے ایک اڈے پر موجود تھے۔مذکورہ امریکی اڈہ جس کا تذکرہ کیا جارہا ہے وہ کون سا ہوسکتا ہے؟۔ خاران میں شمسی ایئر پورٹ جو امریکہ کے زیرِ استعمال ہے یا قطر میں واقع امریکی اڈہ۔؟ تاحال یہ بھی واضح نہیں البتہ مالک ریکی سے برآمد ہونے والا پاکستانی شناختی کارڈ جس پر عارضی پتہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور مستقل پتہ مند، ڈسٹرکٹ کیچ بلوچستان درج ہے بعض سوالات کا خود جواب ہے ۔ حتمی جواب کے لیے بھی شاید مزید انتظار نہ کرنا پڑے۔
مالک ریکی کی گرفتاری کے اثرات نہ صرف یہ کہ خطے کی سیاست بلکہ بلوچ تحریک آزادی پر بھی مرتب ہوں گے۔ ان اثرات پر آئندہ کسی کالم میں بحث کی جائے گی۔