STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Saturday, March 20, 2010

غلام دارانہ سماج

بعض اوقات، عموماًیہ اوقات بے رحمی سے اوقات یاد دلاتے ہیں، ان اوقات میں ایسا لگتا ہے جیسے بلوچ ہونا ایک ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی اور تلافی نہیںنہ نجانے کیوں جب ایسا لگتا ہے تو ذہن پر قدیم غلام دارانہ سماج کا خاکہ سابننے لگتا ہے۔
غلام مکمل طور پر اپنے آقا کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ غلام کی خوشی، غمی ، کھانا، پینا، سونا ، جاگنا حتیٰ کہ موت پر بھی آقا کا اختیار ہوتا ہے۔ مستقبل چشم ابروکا منتظر اور حال آقا کی خوشنودی پر منحصر ہوتا ہے۔ آقا اچھا کرے یا برا غلام کوہر حال میں شکر گزاری کے جذبات کا مظاہرہ کرکے آقا کا احسان مند ہونا چاہیے۔ معمولی مراعات کے عوض اگر آقا بڑی قربانی کا تقاضہ کرے تو غلام اس کو بھی اپنی خوش بختی مان کر خوشی سے رقص کرے۔
28جنوری 2010ءغربت، افلاس ، منشیات اور آپسی جنگوں کی آما جگاہ لیاری سے چند کلومیٹر دور ایک پرتعیش عمارت میں جسے ”یار“لوگ وزیر اعلیٰ (سندھ)ہاﺅس کہتے ہیں وہاں”پاکستان کھپے“ کے خالق جن کو صدر پاکستان کا ”حادثاتی قلمدان “ بھی حاصل ہے اپنے فرمودات سے قرون وسطیٰ کے غلام دارانہ سماج کی یاد دلارہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے لندن نشین بلاول، بھٹو بن کر لیاری سے انتخاب لڑیں گے۔ جب وہ ایسا فرمارہے تھے اس وقت لیاری کی مجبور اور بے کس ماں”دربی بی “سول
ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رہی تھی۔
دربی بی ، ایک محنت کش بلوچ خاتون ۔ 8جنوری کو تلاش روزگار کے دوران انہیں بس سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کیوں؟؟کیونکہ وہ عرصہ دراز سے بھٹو، بھٹو الاپ رہی تھی۔ اسلام آباد کی خوشگوار فضاﺅں سے وزیراعلیٰ ہاﺅس کے پُرتعیش
ہال تک پہنچنے والے پاکستان کھپے اس غلام خاتون کا علاج کروانے کی بجائے اس پر ایک اور ”بھٹو“مسلط کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ ستم تو دیکھئے! ”بلوچ نمائندہ “اخبار نے اس نوآبادیاتی ذہنیت کو لیاری کے لیے تحفہ قرار دیا۔
پاکستان کھپے نے اپنے غلاموں پر عنایات کی برسات جاری رکھی۔ انہوںنے مسکراتے ہوئے لیاری میں خواتین کے لیے یونیورسٹی بنانے اور ترقیاتی اسکیم شروع کروانے کا اعلان کیا۔ گویا یہ قیمت تھی۔ نوجوان نواز بلوچ کے میت کی۔ نواز بلوچ جو کسی کا دولہا تھا، کسی کی امید، کسی کے بڑھاپے کا نوجوان سہارا، وہ کسی کو چاہتا ہوگا اور کوئی اس کے انتظار میں تھی۔وہ دوست تھا، اس کی یادیں، احساسات، جذبات، خواب اور خواہشات
کہیں پیوست تھیں سب بھٹو مفاد کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ بھٹو اس کے لیے یونیورسٹی تعمیر کرنے کا اعلان کررہا ہے۔جنہوںنے اس کے خاندان، دوست احباب، رشتہ داروں اور ہمسایوں سے اس کو چھین لیا ان سے ،قاتلوں سے مفاہمتی عمل جاری رکھنے کا ہنس ہنس کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”پاکستان کھپے“
اب ، اب بلاول آئے گا بھٹو بن کر۔ گبول پارک میں چلا چلا کر لمبی لمبی تقریر یں کرے گا، وعدے وعید کرے گا، لیاری کے غلاموں کو بتائے گا”جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ پھر ، پھر وہ اسلام آباد اور لندن کے، درمیان سفر کرے گا، لیاری میں منشیات پھیلتی رہے گی، رحمان بلوچ ، ڈکیت کا نام پاکر چوہدریوں کے ہاتھوں قتل ہوتا رہے گا۔
پاکستان کھپے جب لیاری سے اپنے رشتے کا تذکرہ کررہے تھے تو اچانک عبدالخالق فٹبالر عرف خالق ڈاڈا خیالوں پر چھانے لگے۔ گیند کے ساتھ کرتب دکھاتے ہوئے، گول کرتے ہوئے، دادو تحسین وصول کرتے ہوئے، پھر آنکھیں نم ہوگئیں یہ یاد کرکے کہ کس طرح وہ 17اکتوبر کو بھٹو کے لیے کراچی کی سڑکوں پر دھماکے کی نذر ہوگئے۔ آنکھیں مزید تر ہوگئیں جب ذہن خالق کے بے روزگار مگر مایہ ناز فٹبالر بھائی رزاق کی جانب چلا گیا۔ رزاق اور اس کا ضعیف والد استاد چنچو آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ مگر، جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
پاکستان کھپے نے لیاری کی ان سسکتی گلیوں تک جانا بھی گوارا نہ کیا جہاں گزشتہ 6سال سے بے وقت موت رقص کناں ہے۔ نائن زیرو کے طواف کے لیے تیار، بولٹن مارکیٹ کے دکانداروں پر احسان مندی کے لیے کمر بستہ صدر پاکستان کے لیے نہ مقتول فہیم کے غمزدہ خاندان کے لیے وقت تھا، نہ نثار بلوچ کی قربانی کے اعتراف کا۔ وہ وزیراعلیٰ ہاﺅس سے فرمارہے تھے لیاری کے عوام کو رہائشی فلیٹس تقسیم کئے جائیں گے۔ لیاری کے عوام جن کی کراچی میں کوئی عزت نہیں، جن کو زندہ رہنے کی اجازت نہیں، جو قدم قدم پر بھٹو اور ان کے تخلیق کردہ ڈرگ مافیا کے چشم ابرو کے محتاج ہیں ان کو کہاں اور کیسے فلیٹس دیے جائیں گے، ”لیاری کو جہنم بناکر جنت تعمیر کی جائے گی۔“
رینجر ز نے کس کے کہنے پر لیاری پر چڑھائی کی؟ امن کمیٹی کے بدامنی پھیلانے والوں کو اس آپریشن کی قبل از وقت اطلاع کس نے دی؟ رات بھر لیاری کو جاگنے پر کس نے مجبور کیا؟ان تمام سوالوں کا جواب صرف یہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے انتخاب لڑیں گے۔ جتنا خون بہا، رزق خاک ہوا۔ ماں بہنوں کی چادریں پامال ہوئیں،تو کیا ہوا۔
لیاری کے بلوچ ، قرون وسطیٰ کے غلاموں کی طرح شکر گزاری کا مظاہرہ کرکے ہندی فلم تھری ایڈیٹس کے اختتام کا یہ منظر دوہرائیں”جہاں پناہ تسی گریٹ ہو تحفہ قبول کرو“چلیں اب لندن نشین بلاول بھٹو زرداری کے استقبال کی تیاری کریں، ناچیں، جھومیں، دلا تیر بجاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments: