STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Saturday, March 20, 2010

جند اللہ اور بلوچ نیشنلزم

مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کے مہیب سائے عقل ، سائنس اور علمی وفکری نشونما کی راہیں مسدود کرکے معاشرے کو سماجی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے انسانیت کش دلدل میں دھکیل دیتی ہےں۔ ملا گزیرہ معاشرہ اندرونی شکست وریخت کا شکار ہوکر افراد کو تصوراتی موشگافیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے۔ بے گانگی اور خود فریبی کا شکار معاشرہ اس بے خبر کبوتر کی مانند ہوتا ہے جس پر جھپٹنے کے لیے بھوکی بلی کو زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑتی۔
تاریخ انسانی شاہد ہے ایسے معاشروں کو ہمیشہ ”سامراجی “ بلیوں کی ہوس کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ قبل از نشاة الثانیہ کی ”مسیحی“ دنیا ہو یا آج کی” اسلامی“ دنیا ، قدیم بابل ونینواہوں یا دور جدید کے زاہدان وکابل ہر جگہ استعماریت کو پروہتوں، پادریوں اور ملاﺅں کی معاونت حاصل رہی ہے۔ یہ معاونت ہمیشہ خدا اور پیغمبروں کے مقدس سمجھے جانے والے ناموں کے پردے میں ہوتی رہی ہے۔
چونکہ استعماریت کو سب سے بڑا خطرہ علمی وسائنسی نظریات کے پھل دار درختوں سے ہے اس لیے استعمار نے مذہبی بنیاد پرستی کے کانٹے دار جھاڑیوں کو دشمن قرار دے کر ان کے خلاف فرضی لڑائیاں لڑیں مگر درپردہ ان کو موجودگی کا جواز فراہم کیا تاکہ انسانوں کے استحصال کو سہل اور ممکن بنایا جاسکے۔
تاریخ کے صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح قومی آزادی، سوشلزم ، آزادی نسواں اور نسل پرست مخالف تحریکوں کے خلاف مذہبی بنیاد پرستی کے ہتھیار کو استعمال کیاگیا۔ آج بھی یہ سامراج پسند مظاہر ہر جگہ اور ہر وقت دیکھے جاسکتے ہیں۔
علم دوست قارئین بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی نے کس عیاری سے ” اہل کتاب بھائی“ امریکہ کی خواہش پر مارکسزم کی اعلیٰ تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ”مذہب انسانوں کے لیے افیون ہے “ جیسے ایک جملے کو بنیاد بنا کر مارکسزم کی غلط تشریح کی۔بھوک، افلاس اور معاشی نابرابری کے خلاف جدوجہد کا درس دینے والے مارکسی نظریات کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل کرکے عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کیا گیا اور اس اشتعال کو پھر انہی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل دنیا بھر میں مختلف شکل وصورت کے ساتھ بار بار دہرایا گیا۔ آج بھی زاہدان، چابہار، بمپور اور سراوان کے بلوچ شہروں، ریگزاروں ، نخلستانوں اور پہاڑوں میں یہ پُرفریب ڈرامہ دکھایا جارہا ہے۔
بلوچ تحریک آزادی جوکہ براہِ راست استعماریت سے متضاد ہے اس سے بلوچوں(مغربی بلوچستان کے ) کو دور رکھنے کے لیے ”جند اللہ “کا بت تراشا گیا۔ پاسدارانِ انقلاب ایران پر بے معنی حملے کرواکے اس بت کو مقدس روپ میں ڈھالا گیا بالکل سامری جادوگر کے ”بچھڑے“ کی طرح۔ عوامی مقبولیت اور تقدس حاصل کرنے کے بعد سامراجی مددو حمایت سے جند اللہ نے بلوچ گجر، بلوچ پنجابی اور کالونی اور کالونائزر کے درمیان موجود حقیقی تضاد کو چھپا کر شیعہ سنی کے غیر منطقی تضاد کی حمایت میں کامیاب پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا۔
گوکہ بعض بر خود غلط بلوچوں کا موقف ہے کہ جند اللہ بلوچ قومی حقوق کے حصول کی جدوجہد کررہی ہے خود جند اللہ نے بھی بعض مواقع پر انہی خیالات کا اظہار کیا مگر بلوچ قومی حقوق کا شیعہ مذہب سے کیا تعلق؟۔ زاہدان میں مسجد امیر المومنین کو خود کش دھماکہ کا نشانہ بنانا چہ معنی دارد ؟ ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس خود کش حملے کے بعد زاہدان میں بلوچ اور گجر شیعوں نے مشترکہ ریلی نکالی اور اس ریلی میں سنیوں، سعودی عرب اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی گئی، حتیٰ کہ بلوچ امام جمعہ زاہدان مولانا عبدالحمید کو منافق کے الفاظ سے پکارا گیا۔ اس ریلی کے بعد سنی بلوچوں کے جذبات بھڑک اٹھے جس سے مولانا عبدالحمید بلوچ کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا ملا۔ اس تمام تر صورتحال میں کس کو فائدہ اور کس کا نقصان ہوا؟
سیکولر بلوچ قوم پرستی جو کہ رنگ ، نسل، زبان، قبائلیت اور فرقہ واریت سے ماورا بلوچ قومی تشکیل کا تقاضہ کرتی ہے جند اللہ کی کارروائیوں سے اسے سخت ضعف پہنچا ہے۔ دوسری جانب شیعہ ازم کی بنیادوں پر استوار ایرانی نوآبادیاتی ریاست کو اپنی موجودگی کا مضبوط جواز فراہم ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان تنگ نظر بلوچ علمائے دین کو بھی پروانہ بحالی جاری ہوا جنہوںنے بعد از انقلاب خمینی بلوچ نوجوانوں کے قتال میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں یہ نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر مشرقی بلوچستان میں پنجابی آباد کا ر کا قتل جائز ہے تو مغربی بلوچستان میں گجر کا قتل کیوں ناجائز ہے؟ نکتہ تو قابل غور ہے مگر اس کو وسیع تناظر میں پرکھا جانا چاہیے۔ مشرقی بلوچستان میں پنجابی آباد کار بلاتخصیص نشانہ نہیں بنائے جارہے بلکہ بلوچ مسلح تنظیموں اور بلوچ حریت پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کے بقول سرمچار صرف ان پنجابی آباد کاروں کو نشانہ بناتے ہیں جو سرکار سے مل کر بلوچ قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ٹھہرتے ہیں اور ان کارروائیوں میں نہ صرف پنجابی آباد کار بلکہ بلوچ بھی ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آتے ہیں۔ روزنامہ توار کے 22دسمبر 2009ءکے ادراتی صفحات پر کالم نگار رامین بلوچ نے اپنے کالم”بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ، اثرات، اسباب، حل“میںاس حوالے سے بعض سائنسی وعلمی نکات اٹھائے ہیں۔ان کے مطابق ”بلوچ سرمچار یہ حقیقت بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے خلاف قابض ریاست کے پاس ایک ہی موثر ہتھیار ”جاسوسی کا نظام ونیٹ ورک “ ہے۔ اس لیے بلوچ سرمچار بڑی جان فشانی سے خفیہ اداروں کے نیٹ ورک کا پتہ لگا کر انہیں ہدف بناتے ہیں جس سے قابض ریاست اور اس کے حلقہ بگوش قوتوں کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ “ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے باعث جاسوسی نیٹ ورک اور پاکستان کی سرکاری مشینری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق اسلام آباد حکومت بلوچستان میں پنجابی افسران کی تعیناتی کا فیصلہ واپس لینے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔(3جنوری 2010روزنامہ توار)گویا مشرقی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ گوکہ پاکستانی میڈیا اور سیاستدان تواتر کے ساتھ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ بلوچستان میں نسلی بنیادوں پر پنجابی کو نشانہ بنایا جارہا ہے مگر سردست یہ پروپیگنڈہ کامیابی سے کوسوں دور ہے۔ دوسری جانب مغربی بلوچستان میں معاملہ یکسر مختلف ہے ۔ بم کرمان شاہراہ یا نوبندیان ، چابہار شاہراہ کی خونی واردات ہو یا واقعہ تاسو کی یا زاہدان کی جامع مسجد امیر المومنین کے اہل تشیع نمازیوں کو خود کش دھماکے کے ذریعے اڑانے کی غیر سائنسی کارروائی ہو۔جند اللہ کے ”سنی مجاہدین“ نے ہر جگہ مذہبی بنیاد پر گجر کو نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے سنی پسندی کا رجحان پیدا ہوا نتیجتاً گجر بلوچ تضاد کی جڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اوربلوچ قومی ارتقاءکی رفتار نہایت ہی سست ہوگئی۔ مغربی بلوچستان کے عوام نے اپنے رشتے بجائے مشرقی بلوچستان کی بلوچ تحریک کے سعودی عرب کے سامراج پسند وہابی حکمرانوں اور افغانستان کے خرد دشمن طالبان سے استوار کرنا شروع کردیے۔ مغربی بلوچستان میں ایرانی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جو اکا دکا آوازیں تھیں ان کو بھی جند اللہ کی لایعنی کارروائیوں اورخود کش دھماکوں نے خاموش کردیا۔
اس تمام تناظر میں بظاہر بلوچ آئمہ کرام ، غیر جانبدار اور ایرانی آیت اللہ حکمران جند اللہ کے حریف بن کر سامنے آئے۔ مگر بغور تجزیہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس ٹرائیکا نے بلوچ نیشنل ازم کے خلاف خاموشی اتحاد کرکے موجودہ صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کی کوشش کی۔ بلوچ آئمہ کرام نے اپنے خطبات جمعہ میں اسلام کی سربلندی کی آڑ لے کر جند اللہ کی کارروائی کو حق بجانب اور مالک ریکی کی حمایت میں غیر محسوس طور پر رائے عامہ ہموار کیا جبکہ ایرانی حکومت نے زابل مدرسہ کی مسماری، علمائے کرام کی گرفتاری اورپہرہ(ایرانشہر)میں مدرسے کے طالبعلموں کے ہاتھ پیر کاٹ کر عوام کو باور کروا یا کہ مالک ریکی کے نظریات کلی طور پر درست ہیں۔ اس ٹرائیکا کے غیر اعلانیہ اتحاد کے باعث بلوچ معاشرے کے بانجھ پن میں مزید اضافہ ہوا۔
بلوچ معاشرے میں جند اللہ کی قدر وقیمت میں اضافہ کا ایک اور سبب اس کا پراسرا ر ہونا اور طاقت ورنظر آنا ہے۔ زاہدان سمیت بلوچستان بھر میں یہ خیال عام ہے کہ مالک ریکی ماورائی قوتوں کا حامل ہے وہ ایرانی خفیہ ادارے کے ہوشیار اہلکار کو دھوکہ دے کر کبھی بھی اور کہیں بھی دھماکہ کرسکتا ہے، مسلح فوجی اہلکاروں کو اغواءکرسکتا ہے۔ اور مرکزی شاہراﺅں کو گھنٹوں بلاک کرکے ریاستی رٹ کو چیلنج کرسکتا ہے۔ بلاشبہ مالک ریکی نے یہ سب کچھ کر دکھایا ہے مگر اس کے پس پشت ماورائی طاقتوں کے برخلاف ان قوتوں کے نشانات ملتے ہیں جنہوںنے قبل ازیں اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے اخوان المسلمین ، صدام حسین، خمینی، طالبان اور دیگر عفریت تخلیق کئے اور بعد ازاں ان کے خلاف فرضی جنگ کا آغاز کردیا۔
ایک امریکی اخبار کے مطابق ایران کو اندرونی پر غیر مستحکم کرنے کے لیے سی آئی اے کے زیرِ اہتمام ایرانی حکومت کے مخالف گروپوں کا ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں خوزستان کے عرب قوم پرستوں ، مجاہدین خلق سمیت مالک ریکی نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں ایرانی ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی جس میں مالک ریکی کو بھی اہم کردار تفویض کیا گیا۔بعض اطلاعات کے مطابق جند اللہ کو اسٹرٹیجک سہولت فراہم کرنے کے لیے سی آئی اے نے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی معاونت حاصل کی۔ گوکہ ان اطلاعات کو مکمل طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم حالیہ پشین خود کش دھماکہ کے بعد جس طرح ایران نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا اس سے ان اطلاعات پر لگے شہبات کے دھبے نسبتاً کم گہرے ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے پشین دھماکہ کے بعد جند اللہ نے فوراً نہ صرف اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ ”شہید “ مجاہد کی تصاویر بھی انٹرنیٹ پر مشتہر کی مگر جب ایران نے پاکستان پر دباﺅ بڑھانا شروع کیا تو جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی نے 90ڈگری کا یوٹرن لے کر اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔مزید یہ کہ امریکی حمایت یافتہ پاکستانی نجی چینل جس نے مالک ریکی کا انٹرویو نشر کیا تھا اس واقعہ کے بعد اس نجی چینل نے اس وضاحت کے ساتھ مالک ریکی کا ایڈٹ کردہ انٹرویو دوبارہ نشر کیا کہ ”ہم بھی پاکستانی ہیں اور ہمیں پاکستانی مفادات کا احساس ہے “۔ اس انٹرویو میں وہ تمام جملے حذف کئے گئے جس میںمالک ریکی پاکستان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔جند اللہ کو پاکستانی خفیہ اداروں کی کی مدد وحمایت حاصل ہے یا نہیں؟ اس سوال کا ہاں یا نہیں میں حتمی جواب دینا تو ممکن نہیں تاہم جب ڈاکٹر خالد، دلجان، اکبر خان بگٹی، اور واحد کمبر شہید وگرفتار ہوں مگر مالک ریکی اور ان کے ”مجاہدین“ کا انہی پہاڑوں میں بال تک بیکا نہ ہو تو ذہن میں سلیمانی ٹوپی کی بجائے کسی اور شے کا خیال آتا ہے۔ اگر بالغرض وہ افغانستان میں براجمان ہیں تو نیٹو اور امریکہ شک کے دائرے میں آجاتے ہےں اس کے ساتھ ساتھ افغانستان ، زاہدان، سراوان اور پشین کے درمیانی فاصلے اور پورا جغرافیہ زہن پر چھا جاتا ہے۔
جند اللہ کی حد درجہ پراسراریت بھی بجائے خود اس کے مشکوک ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ گوکہ مشرقی بلوچستان میں بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے بھی بظاہر خفیہ تنظیمیں ہیں مگر کراچی سے لے کر نوشکی تک ان کی موجودگی ثابت ہے جبکہ چابہار سے لے کر تاحد زابل جند اللہ کہیں بھی موجود نہیںمگر اس کے باوجود جند اللہ مشرقی بلوچستان کی عسکری تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور طاقتور نظر آتی ہے۔
مختصراً ، جند اللہ شکوک وشبہات میں ملفوف ایک ایسا گروہ ہے جس کی سرگرمیوں سے بلوچ قومی سوال اور اس کے حقیقی حل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلوچ قومی تحریک سے وابستہ تمام افراد وادارے جند اللہ کے حوالے سے اگر محتاط رویہ اختیار کرکے مغربی بلوچستان کے حوالے سے اپنا مطالعہ مکمل کرکے ایک واضح حکمت عملی اور ٹھوس پروگرام مرتب کریں تویہ جند اللہ کی کورانہ حمایت سے بدر جہابہتر ہوگا۔ جند اللہ کی بے جا حمایت سے برآمد ہونے والے نتائج نہ صرف مغربی بلوچستان بلکہ مشرقی بلوچستان پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں جو یقینا کسی بھی طرح بلوچ قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔

No comments: