تاریخ اسلام کے مطابق قبل ا ز اسلام بعض عرب قبائل اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے بعد ازاں پیغمبر اسلام نے اس غیر انسانی روایت کو خلاف اسلام قرار دے کر اس پرپابندی عائد کردی۔ شار حین ومورخین اسلام اس روایت شکنی کو فخر یہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔یقینا کسی کو زندہ درگور کرنا انتہائی غلیظ ومکروہ فعل ہے مگر پاکستانی، شارحین ومورخین اسلام کے قول وفعل میں تضاد اس غیر انسانی روایت سے بھی ہزار گنا مکروہ فعل ہے۔ کیا آج تک کسی نے سنایا دیکھا کہ کوئی مبلغ اسلام ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ یعنی زندہ درگو ر بلوچوں کے حق میں آوا زاٹھا کر سنت پیغمبری کو جلا بخشے؟
پاکستانی نصاب ومیڈیا کے مطابق پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک اسلامی ریاست میں لوگوں کو ”زندہ درگور“کرنے کا عمل پوری آب وتاب سے جاری ہے مگر کسی کونے کھدرے سے آواز حق بلند نہیں ہوتی۔ البتہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہمارے عہد کے اس انسانی المیہ کے حوالے سے ایک کیس زیرِ سماعت ہے۔ جس کی سربراہی روبہ زوال کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے جسٹس جاوید اقبال کررہے ہیں۔موجودہ عدلیہ کی معطلی وبحالی سے قبل” زندہ درگوروں“کے لواحقین کی اشک شوئی کا بارگراں منکرِ مشرف جسٹس افتخار چوہدری کے کندھو ںپر تھا۔ معطلی وبحالی کے طویل سفر کے اختتام کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس سنگ گراں سے خود کو بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر دور رکھا اور جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ کو یہ بار سونپ دیا۔جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک بار اپنے ریمارکس میں اس مسئلے کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا مگر وائے افسوس!۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری میں تاخیر جیسے شعبہ جاتی معاملے میں جسٹس شاکر اللہ جان چیف جسٹس کو لارجر بنچ تشکیل دینے کی درخواست کرتے ہیں جبکہ زندہ درگوروں کا معاملہ 3رکنی بینچ کے حوالے ہے۔
بلوچی میں کہتے ہیں کہ ”کوریں چماں پٹے ارس باز انت“سو ہم مجبور ومقہور بلوچوں نے بھی موہوم امیدوں کی بجھتی شمع کو بجھنے نہ دیا۔ ”رحمان“ ڈکیت نہیں ملک نے سپریم کورٹ کے ساتھ کسی نئے تصادم سے بچنے کے لیے ایک ”اعلیٰ“ اور ”سطحی“اجلاس طلب کی جس میں خفیہ اداروں کے سربراہان نے بھی اپنے جاہ وجلال کے ساتھ شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کی جائیں گی۔ کس کے خلاف؟جواب ندارد۔مزید ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے، مدعی بھی منصف ٹھہر گئے۔نجانے کیوں کان بجتے ہیں ”جائیں تو جائیں کہاں“۔ دوسری جانب آئی جی بلوچستان کے فرمودات ایک الگ طوطا مینا کی کہانی سنا تے ہیں۔ جناب کا فرمانا ہے کہ ”لاپتہ افراد کے ورثاءدرخواست دیتے وقت دیکھیں کہ جس افسر یا ایف سی کے میجر کو وہ نامزد کرتے ہیں وہ یا تو دوسال پہلے رہا ہے اور اب اس کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ “اس چوں چوں کے مربے سے کوئی نتیجہ خاک نکلے جو نکلے بس پریشان نکلے۔
اس بات کو ایک عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتا ہوگا کہ کسی فرد کو گرفتار کرکے لاپتہ کرنے کا عمل کسی خاص فرد کا اپنا ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا یہ تو ایک ادارہ جاتی پالیسی ہوتی ہے اور اس میں پوری مشینری ملوث ہوتی ہے۔ مگر آئی جی بلوچستان زندہ درگورلواحقین کو طوطامینا، گل بکاﺅلی اور الف لیلیٰ کے قصے سنارہے ہیں۔یقینا ان کہانیوں کے تخلیق کاروہ ہیں جو ”اعلیٰ “ اور ”سطحی “ اجلاسوں میں نخوت سے بیٹھ کر منرل واٹر پیتے اور بیش قیمت سگار کاکش لگاتے ہیں یا وہ ہیں جو جدال وقتال کے درمیان ایک پرسکون گوشے میں ”نہاری“ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہمارے عہد کے عظیم ادیب گار سیا مارکیز نے شاید انہی حالات وواقعات سے متاثر ہوکر شہرہِ آفاق افسانہ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“تخلیق کی۔ افسانے میں دو افراد ایک شریف اور ملنسار نوجوان کے قتل کا منصوبہ بناتے ہیں۔ اس منصوبے کی اطلاع پورے شہر کو ہوتی ہے اور ہر کوئی افسوس کرتا ہے کہ آج اس شریف انسان کی موت واقع ہوجائے گی مگر بے حس معاشرے کے بے حس ارکان اس نوجوان کو خبردار کرنے کی بجائے اس کی موت کا تماشہ دیکھتے ہیں اور بالآخر بے حسی کے ہجوم میں درد مند نوجوان قتل ہوجاتا ہے۔
پاکستانی میڈیا، سیاسی ومذہبی جماعتیں، تبلیغی جماعتیں، عدلیہ، نام ونہاد سول سوسائٹی، وکلائ، انسانی، حقوق کی سینکڑوں تنظیمیں اور عام افراد سب جانتے ہیں لاپتہ افراد کا پتہ کہاں ہے؟وہ کس حال میں ہیں؟ اور ان کا کیا انجام ہوسکتا ہے ؟ ۔ پر سب مہر بہ لب ہیں۔ ایک چینل نے ایک مخصوص جماعت کی کرپشن کا پردہ چاک کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ کوئی جہادی عافیہ صدیقی کو گھر یلو خاتون ثابت کرنے پر جتا ہوا ہے، کوئی نسیم حمید کی بلائیں اتاررہا ہے، کسی کو بھارت دشمنی سے فرصت نہیں مل رہی، کسی نے فکر افغانستان میں سر کھپا یا ہوا ہے، میرا کی شادی، این آر او،کرکٹ ٹیم، پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان کراچی پرقبضے کی جنگ اہمیت اختیار کرگئی۔ گر کچھ نہیں تو صرف ”زندہ در گوروں“ کے لیے سنت پیغمبری پر عمل کرنے والا نہیں۔
نوبت بہ اینجار سید، جو لاپتہ ہیں انکا پتہ ملتا الٹا ایک اور موجود معدوم ہوگیا۔ یعنی پاکستان دوست نیشنل پارٹی کا بلوچ کارکن خیر بخش بھی اپنے اہلِ خانہ کو زندہ درگور کرگیا۔ ہوسکتا ہے آپ سوچ رہے ہوںکہ خیر بخش جو خود لاپتہ ہے وہ کیسے اپنے خاندان کو زندہ درگور کرگیا؟ تو جناب یہ سوال مجھ سے نہیں”رحمان “ڈکیت نہیں ملک سے پوچھیے جو فرماتے ہیں لاپتہ افراد ”ویلنٹائن ڈے“ منارہے ہیں۔حالات وواقعات بتارہے ہیں کہ یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا۔ کیونکہ وہ سپریم کورٹ جو ایف آئی اے اہلکار کی جنبش پر وفاقی وزیر داخلہ کو توہین عدالت کی تلخی سے آشنا کرتی ہے مگر لاپتہ افراد کے حوالے سے ہر بار غلط رپورٹ کے باوجود وہ متعلقہ محکموں پرصرف برہمی کے اظہارپر قناعت کرتی ہے وہاں کسی مثبت نتیجے کی توقع عبث ہے۔ اس کی تصدیق اس امر سے بھی کی جاسکتی ہے کہ ایک جانب لاپتہ افراد کا گرم معاملہ اسلام آباد کی سرد فضاﺅں میں حل کا منتظر ہے دوسری جانب لاپتہ بلوچوں کی فہرست میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ لاپتہ زندہ درگوروں کے معاملے میں سنجیدہ ہو مگر چونکہ پاکستان کا پالیسی ساز اور فیصلہ کن ادارہ احتساب سے ماوراہے اس لیے سپریم کورٹ کو جلد یا بدیر اس سنگ گراں کو چوم کر پیچھے ہٹنا ہوگا ۔ قوی امکان یہی ہے کہ بلوچ سیاسی رہنماﺅں وکارکنوں کی بازیابی خوش فہمی ہی رہے گی۔ البتہ مزید بلوچ سیاسی رہنماﺅں وکارکنوں کی گمشدگی وشہادت یقینی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگاکہ بلوچ جماعتیں جلسہ، جلوسوں ومظاہروں کے سراب سے نکل کر روشن وٹھوس حقیقت کا سامنا کرکے براہِ راست عالمی اداروں سے مکمل دستاویزات کے ساتھ رابطہ کریں۔
No comments:
Post a Comment