ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد جب امریکہ نے افغانستان کے پہاڑوںکو سرمہ بنانے کا عمل شروع کرکے مذہبی شدت پسندوں کو نئی زندگی دی تو اسی دوران زاہدان سے تعلق رکھنے والے مذہبی شدت پسند عبدالمالک ریکی کا ظہور ہوا۔ مالک ریکی کی تنظیم جند اللہ نے ایرانی فورسز، سرکاری ملازمین اور گجر شیعوں پر خوفناک حملے شرو ع کردیے۔ زاہدان میں پاسداران انقلاب کی بس، مسجد امیر المومنین، تاسوکی میں ایرانی ملازمین، نوبندیان میں سرکاری عہدیدار اور پشین میں پاسداران انقلاب وہ اہداف ہیں جنہوںنے ایرانی ملاﺅں کی راتوں کی نیندیں حرام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دینی مدرسوں کے پیدوار تیس سالہ مالک ریکی کے بارے میں ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کو امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ البتہ ان تینوں نے ہمیشہ اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ گوکہ ایران اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے میں کبھی کامیاب نہیں رہا تاہم بعض ایسے حالات وواقعات ضرور سامنے آئے جنہوںنے ایران کے الزامات کو ایک حد تک درست ثابت کروایا لیکن چونکہ ٹھوس ثبوت کبھی منظر عام پر نہ آسکے اس لیے ایران کا الزام ہمیشہ الزام کے دائرے میں مقید رہا۔
دوسال قبل شدید ایرانی دباﺅ کے باعث پاکستان نے مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی کی گرفتاری ظاہر کی۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق حمید ریکی کو پاکستانی خفیہ اداروں نے گفت وشنید کے بہانے دھوکے سے گرفتار کیا تاکہ ایرانی دباﺅ کم کی جاسکے کیونکہ ایران نے سنجیدگی سے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے تعاون نہ کیا تو ایران از خود کارروائی یا گرم تعاقب سے گریزنہیں کرے گا۔ دومہینے تک ایران، پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں مذاکرات ہوتے رہے بالآخر طویل مذاکرات کے بعد بعض سمجھوتوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ عبدالحمید ریکی کو اسلام آباد سے تہران پہنچادیا گیا۔
ایرانی انٹیلی جنس کے مختلف تفتیشی مراحل سے گزرنے کے بعد جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی نے ایرانی میڈیا پر آکر متعدد واقعات کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ مالک ریکی کو عالمی قوتوں کی مدد وحمایت حاصل ہے۔ حمید ریکی نے میڈیا کے ذریعے ایرانی عوام سے معافی
مانگ کر جند اللہ سے تعلق پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ حمید ریکی چونکہ ایرانی انٹیلی جنس کے زیرِ حراست تھے اس لیے ان کے اعترافات اور ظہار شرمندگی کو شدید تشدد کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم حمید ریکی کی گرفتاری نے ایران کے حوصلوں کو کسی قدر بلند کردیا۔
ایران کی خوش فہمی زیادہ دیر تک برقرا رنہ رہی مالک ریکی نے جلد اپنی توانائیوں کو مجتمع کرکے پہلے سراوان چھاﺅنی پھر پشین میں پاسداران انقلاب کو خود کش دھماکوں میں اڑادیا۔
پشین دھماکے نے ایران کو لرزا دیاکیونکہ مذکورہ دھماکے میں طاقتورترین ایرانی فورس پاسداران انقلاب کے اہم ترین کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایران نے جوابی طور پر مشرقی ومغربی بلوچستان کی سرحد بند کردی اور ایک بار پھر پاکستان کو گرم تعاقب کی دھمکی دی گئی۔ ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی اور وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی نے یکے بعد دیگرے پاکستان کے دورے کئے۔پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملاقات میں ایرانی حکام نے سخت موقف اپنایا اور ایک بار پھر مالک ریکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا آمدہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے معذوری ظاہر کی یوں یہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ البتہ گاہے بگا ہے ان نکات پر ایران وپاکستان کے درمیان بات چیت
جاری رہی۔
فروری 2010ءکو امریکہ نے ایران، پاکستان سرحد سے متصل افغان بلوچ علاقے ہلمند میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے ایران کا تعاون ناگزیر تھا اس لیے ایک بار پھر کابل میں ایران وامریکہ کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ دوسری جانب ایران نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی شروع کردیں۔ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی حکام کو باور کرایا کہ اگر مغربی بلوچستان میں امریکی ایماءپر جند اللہ کی کارروائیاں جاری رہیں تو ایران افغانستان میں عدم تعاون کی پالیسی اختیار کرسکتا ہے جس سے یقینا بھارتی مفادات کو بھی زک پہنچے گی۔ چونکہ مغربی بلوچستان میں بھارتی مفادات پیوست ہیں جن کا دائرہ افغانستان تک پھیلا ہوا ہے اس لیے بھارت نے ایران کو اس حوالے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
کابل میں امریکی وایرانی حکام کے درمیان جاری مذاکرات میں بھارت ، نیٹو اور سعودی عرب کو بھی شامل کرلیا گیا۔اس مذاکرات میں کیا گفتگوہوئی اور کن کن معاملات پر اتفاق کیا گیا؟ سر دست یہ واضح نہیں البتہ 23فروری 2010ءکو مالک ریکی کی گرفتاری کے اعلان کو ان مذاکرات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کی گرفتاری بلاشبہ تاحال ایک معمہ ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس نے جو ویڈیو جاری کی اس کے مطابق مالک ریکی کو نقاب پوش ایرانی اہلکار ایک جہاز سے اتاررہے ہیں۔ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس ریکی بالکل ہشاش بشاش نظر آرہے ہیں۔ ان کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور وہ اچھے بچوں کی طرح جہاز سے اترتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جہاز سے جب وہ اترتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی نظر آتی ہے جبکہ جہاز میں وہ بغیر ہتھکڑی کے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ایک معمہ ہے کہ مذکورہ ہوائی جہاز میں مالک ریکی کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا تو کیا یہ کوئی چارٹر ہوائی جہاز تھا؟ ۔ اگر یہ کوئی چارٹر ہوئی جہاز تھا تو مالک ریکی کو یہ سہولت کس نے فراہم کی؟پھر اس چارٹر جہاز کی اطلاع ایرانی انٹیلی جنس ذرائع کو کس نے دی؟ ۔کیا ایسا ہوسکتا ہے ایران ایک اڑتے جہاز کو زمین پر اترنے پر مجبور کرکے فضائی قوانین توڑ دے اور امریکہ خاموش رہے؟دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مالک ریکی جہاز کے ذریعے پاکستان کے راستے ایک عرب ملک جارہے تھے ایرانی حکام نے خلیج فارس میں جہاز کو اترنے پر مجبور کیا اور جہاز کی تلاشی کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا جبکہ وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی ایک الگ کہانی سنارہے ہیں ان کے مطابق ریکی کو ایران کے باہر سے ایک طے شدہ آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر ماشاءاللہ شاکری اور ایرانی سرکاری ٹی وی ان کی گرفتاری زاہدان سے ظاہر کررہی ہیں۔ بہر کیف مالک ریکی اور جند اللہ کی طرح ان کی گرفتاری بھی ایک معمہ ہے۔
جند اللہ نے اپنے بیان میں جو الزام لگایا ہے وہ بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ جند اللہ کے مطابق جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کو یورپی، افغان اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے گرفتار کرکے ایران کے حوالے کیا ہے۔ جند اللہ کے اس الزام کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان مسئلے کے تناظر میں امریکہ نے پاکستان کے ذریعے ایران کے بعض تحفظات ختم کرنے کے لیے مالک ریکی کا پتہ صاف کروایا۔ اس دلیل کی حمایت ایران کے اس الزام میں بھی پوشیدہ ہے کہ مالک ریکی گرفتاری سے قبل امریکہ کے ایک اڈے پر موجود تھے۔مذکورہ امریکی اڈہ جس کا تذکرہ کیا جارہا ہے وہ کون سا ہوسکتا ہے؟۔ خاران میں شمسی ایئر پورٹ جو امریکہ کے زیرِ استعمال ہے یا قطر میں واقع امریکی اڈہ۔؟ تاحال یہ بھی واضح نہیں البتہ مالک ریکی سے برآمد ہونے والا پاکستانی شناختی کارڈ جس پر عارضی پتہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور مستقل پتہ مند، ڈسٹرکٹ کیچ بلوچستان درج ہے بعض سوالات کا خود جواب ہے ۔ حتمی جواب کے لیے بھی شاید مزید انتظار نہ کرنا پڑے۔
مالک ریکی کی گرفتاری کے اثرات نہ صرف یہ کہ خطے کی سیاست بلکہ بلوچ تحریک آزادی پر بھی مرتب ہوں گے۔ ان اثرات پر آئندہ کسی کالم میں بحث کی جائے گی۔
No comments:
Post a Comment