STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Saturday, March 20, 2010

کراچی:مفاداتی جنگ میں بلوچ ایندھن کا استعمال

مائی کلاچی ایک بار پھر اپنے فرزندوں کو خاک خون میں لتھڑے دیکھ رہی ہے۔ دوسروں کے مفادات کی جنگ میں بلوچ ایندھن کا استعمال بڑی بے دردی سے جاری ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا، اس خونی اور بھیانک کھیل کا منطقی انجام کیاہوگا؟ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ کہنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ حالات واقعات پر نظر رکھنے والے مدت سے اس خوفناک صورتحال کی پیشن گوئی کررہے تھے۔
اس کھیل کی ابتداءاس وقت ہوئی جب کراچی کی سب سے بڑی جماعت نے لیاری پر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی پہلی کوشش کے طور پر لیاری کے مختلف علاقوں میں اپنے دفاتر قائم کئے اور ان دفاتر کے ذریعے بلوچ عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اسی دوران جب معروف بلوچ دانشور یار محمدیار اور معروف بلوچ ادیب عباس علی زیمی جیسے مایوس اور شکست خوردہ شخصیات نے اس جماعت سے وابستگی اختیار کی تو چہار جانب خطرات میں گھرے بلوچ نوجوانوں نے بھی اسے نجات دہندہ تصور کرلیا۔ متعدد بلوچ نوجوان اس جماعت سے وابستگی پر فخر محسوس کرنے لگے۔
پاکستان کی سب سے بڑی وفاق پرست جماعت جس کی عرصہ دراز سے لیاری اور دیگربلوچ علاقوں پر حکمرانی تھی کو اس صورتحال سے شدید بے چینی لاحق ہوئی۔ اس اثناءمین کراچی کی جماعت نے لیاری کے علاقے ککری گراﺅنڈ میںایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا جس میں معروف بلوچ گلوکار عارف بلوچ نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔گوکہ وفاق پرست سیاسی پارٹی نے اس جلسہ عام کو ناکام بنانے کی ہر ممککن کوشش کی مگر وہ ناکام رہی۔ 26اگست 2007ءکو وفاق پرستوں کو غیبی امداد ملی۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد جب بلوچ سراپا احتجاج تھے تو وفاق پرستوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نواب بگٹی کی شہادت کا ذمہ دار لسانی جماعت کو ٹھہرا کر لیاری میں ان کے تمام دفاتر بند کروائے گئے، بلوچ نفرت کو خوب خوب استعمال کیا گیا۔ اس سانحے نے لسانی جماعت کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔
یہاں سے ناکامی کے بعد لسانی جماعت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوںنے لیاری میں 2متحارب بلوچ گروپوں میں سے ایک کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ وفاقی جماعت نے دوسرے گروپ کی سرپرستی شروع کردی۔ اس لڑائی میں سینکڑوں بلوچ قتل وزخمی ہوئے۔ ہزاروں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس پورے عرصے میں نہ صرف لیاری کی زندگی مفلوج ہوئی بلکہ اس کا مزاج بھی بدل گیا۔ سیاسی وسماجی شکست وریخت نے اسے نڈھال کردیا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں صرف 2افراد روشنی کے حصول کے لیے لڑتے رہے۔ ایک شہید غلام محمد بلوچ ایک دوسرا زاہد حسین بلوچ تاہم بعد ازاں گرد آلود گرم ہواﺅں کے تھپیڑے سے زاہد حسین بھی خود کو نہ بچاسکے البتہ شہید غلام محمد بلوچ آخری دم تک ثابت قدم رہے۔
انتخابات کے دوران بے نظیر بھٹو کے قتل نے وفاق پرستوں کی گرتی ہوئی ساکھ کو مزید سنبھالا دیا۔ الیکشن جیتنے اور حکومت بنانے کے چند ماہ بعد بلوچ گروپوں کے درمیان تصفیہ کروایا گیا اور لیاری میں ایک ایسی امن قائم کردی گئی جس کی تہیہ میں سونامی پوشیدہ تھا۔
اس تمام عمل کے نتیجے میں رحمان بلوچ کی شخصیت ابھری۔ رحمان بلوچ نے پیپلزامن کمیٹی تشکیل دے کر سماجی کاموں کا آغاز کردیا۔ رفتہ رفتہ وفاق پرست رہنماﺅں کے مقابلے میں رحمان بلوچ کی حیثیت زیادہ معتبر بن گئی۔رحمان بلوچ نے نہ صرف وفاق پرستوں بلکہ کراچی کی لسانی جماعت کو بھی چیلنج کردیا۔ انہوںنے امن کمیٹی کو لیاری کی حدود سے نکال کر کراچی کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کی منظم کوششیں شروع کردیں۔ کھارادر، میٹھادر، صرافہ بازار، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ حتیٰ کہ صدر بھی امن کمیٹی کی مفتوحات میں شامل ہوگئی۔ وفاقی جماعت اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار لسانی جماعت کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
کراچی کی لسانی جماعت جس کی اجارہ داری کو پہلے ہی پختون چیلنج کا سامنا تھا اس اچانک افتاد سے وہ مزید دباﺅ میں آگئی۔ تیسری جانب اسے گٹر باغیچہ پر قبضے کے معاملے میں بھی مزاحمت کا سامنا تھا۔ جہاں ایک باثر گروپ کی سرپرستی میں نثار بلوچ ڈٹا ہوا تھا۔ ان تمام عوامل نے مل کر لسانی جماعت کی بالادست پوزیشن کو شدید خطرے سے دوچار کردیا ۔
اگست 2009ءمیں رحمان بلوچ پولیس کے ہاتھوں پر اسرا ر طور پر قتل ہوگئے۔ چند ماہ بعد نثار بلوچ بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔ لسانی جماعت نے اپنی بالادستی کی کوششیں دوبارہ شروع کردیں۔ وفاقی جماعت کو صورتحال کا اندازہ تھا اس لیے انہوںنے رحما ن بلوچ کی قائم کردہ امن کمیٹی کو مزید توانائی فراہم کی۔
صورتحال گھمبیر ہوچکی تھی۔ دومتضاد مفادات کی حامل جماعتوں کا خوفناک تصادم ناگزیر تھا۔ دونوں اپنے غیر انسانی مفادات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ دسمبر 2009ءکو عاشورہ محرم کے جلوس میں ایک پراسرا دھماکہ ہوا اور وفاق پرست جماعت کی راج دھانی بولٹن مارکیٹ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ گویا طبل جنگ بج گئی۔شروع شروع میں اکا دکا قتل کے واقعات پیش آئے۔پھر بالآخر 8جنوری کو خوفناک جنگ کا آغاز ہوگیا۔
بلوچ، مرتا رہا، سسکتا رہا۔ 9جنوری کو پھر بلوچ خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اس جنگ کا اختتام کب ہوگا؟ پتہ نہیں۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچ کو دوسروں کے مفادات کا ایندھن بننے سے خود کو روک کر اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا جو متاثر ہوتے جارہے ہیں۔
وفاقی جماعت کے تعلقات چونکہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے حددرجہ خراب ہوچکے ہیں اور لسانی جماعت کو ہمہ وقت مقتدرہ کی حمایت حاصل رہی ہے اس لیے موجودہ صورتحال لسانی جماعت کے لیے حدر درجہ خوش کن ہے۔ اقتدار اور اثرو رسوخ کی اس جنگ میں لازماً بلوچ کا ہی خون بہے گا کیونکہ وفاق پرست جماعت کو زندہ رہنے کے لیے بلوچ زندگی کی ضرورت ہے جبکہ بلوچ قومی تحریک کو کراچی میں منظم ہونے سے روکنے کےلیے بھی یہ جنگ ناگزیر ہے۔
موجودہ حالات میں نہ صرف کراچی بلکہ بلوچستان کے قوم پرست قوتوں بالخصوص بی این ایف کو متحرک ہونا ہوگا۔ کراچی میں آباد بلوچوں کی نمائندگی جو اس وقت وفاق پرستوں کے پاس ہے بی این ایف کو وسیع عوامی رابطہ مہم کے ذریعے خود لے لینی چاہیے۔ بصورت دیگر بلوچ کراچی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔

No comments: