فرد اہم نہیں ہوتا اس کا وہ کردار اور عمل اہم ہوتا ہے۔جو وہ ایک خاص نظریے اور مقصد کے تحت انجام دیتا ہے۔ نظریہ مقصد کی تشکیل کرتی ہے اور مقصد کا حصول عمل کا متقاضی ہوتا ہے۔مقصد اور نظریہ سے عاری زندگی اس صحرائی جھاڑی کی مانند ہوتی ہے جو نہ تو کسی مسافر کو سایہ فراہم کرسکتا ہے اور نہ ہی اس کے شکم کا بوجھ بانٹ سکتا ہے۔عظیم انسان وہ ہوتے ہیں جو جبر، استحصال اور انسان کے ہاتھ انسان کی غلامی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ وہ شمع امید کے ہتھیار سے ظلما ت کو شکست دے کر نوید سحر دیتے ہیں۔ یہی انسان تاریخ کا روشن باب بن کر اساطیر کا روپ دھار لیتے ہیں۔
اسپارٹکس سے لے کر شہید غلام محمد تک تاریخ پر ایسے ہی لوگوں نے راج کیا ہے۔ میں اس فرد سے واقف نہیں جس کی لاش وحدت کالونی کے کھیتوں میں پڑی ہے جس پر ایک دہشت زدہ تنخواہ دار وردی پوش پہرہ دے رہا ہے۔میرے لیے یا شاید آپ کے لیے بھی یہ جاننا اہم نہیں خون میں لت پت یہ انسان کون ہے کیونکہ فرد اہم نہیں ہوتا اس کا وہ کردار اور عمل اہم ہوتا ہے جو وہ ایک خاص نظریے اور مقصد کے تحت انجام دیتا ہے۔ہم جانتے ہیں وہ انسان جسے مجید بلوچ کے نام سے شناخت کیا جارہا ہے ایک اعلیٰ مقصد اور نظریے پر قربان ہوا۔ وہ تاریکی کی قوتوں سے لڑتا رہا ہمیں روشنی دینے کے لیے وہ ہم گمنام افراد کے مجموعے کو بلوچ شناخت دینے کے لیے مصروف جہد تھا۔ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔یہی کافی ہے کسی کو سمجھنے اور جاننے کے لیے آئیے! دیکھتے ہیں ہم غلاموں کے دوست کے ساتھ درحقیقت ہوا کیا تھا۔
سب سے پہلے ایف سی نے اخبارات کو ایک پریس ریلیز جاری کی۔ اس کے مطابق ”ایف سی کی گشتی پارٹی معمول کے مطابق بروری روڈ پر گشت کررہی تھی کہ اچانک نامعلوم مسلح افراد نے ایف سی کی گشتی گاڑی پر دستی بم سے حملہ کیا اور فائرنگ شروع کردی جس سے ایف سی کے 4اہلکارزخمی ہوگئے جبکہ ایف سی کی جوابی فائرنگ سے ایک حملہ آور مارا گیا دیگر فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے”اس پریس ریلیز کے چند گھنٹوں بعد غزہ بند اسکاﺅٹس کے کمانڈنٹ کرنل شہزادہ عامر نے میڈیا کو بتایا کہ ”ایک گھر سے ایف سی پرفائرنگ کی گئی ایف سی نے پوزیشنیں سنبھال کر اس مکان کو گھیرلیا۔ کرنل عامر کے مطابق ایف سی اہلکار سامنے سے اندر داخل ہوئے جبکہ حملہ آور پیچھے سے فرار ہوگئے۔بقول ان کے حملہ آوروں کاایک ساتھی مکان سے کچھ فاصلے پر کھیتوں میں جاتا دکھائی دیا۔ ایف سی نے اس پر فائرنگ کی اور وہ ہلاک ہوگیا۔
ایف سی کے دونوں بیانات کے درمیان تضاد واضح ہے۔ پہلے بیان میں گاڑی پر حملہ اور جوابی فائرنگ کی کہانی بیان کی گئی جبکہ بعدمیں ایک مکان کا قصہ شروع کردیا گیا۔ چونکہ دوسرا بیان ایف سی کے ایک ذمہ دا ر افسر کی جانب سے سامنے آیا اس لیے فی الحال اپنی توجہ اس پر مرکوز کرتے ہیں۔
کرنل عامر بتاتے ہیں مکان کو ”گھیرے“ میں لیا گیا مگر دوسری سانس میں وہ پہلی بات بھول کر حملہ آور کو پچھلے راستے سے فرار ہوتے دکھاتے ہیں۔ اب سمجھ میں نہیں آتا گھیرے میں لینے کا مطلب کیاہوتا ہے۔ اگر مکان گھیرے میں تھا تو وہاں سے کسی کا آسانی سے فرارہونا ممکن نہیں اس کے لیے گھیراﺅ تو ڑنا لازمی ہے۔اگر گھیراﺅ توڑا گیا تو ایف سی اہلکاروں کو یقینا جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہوگا لیکن کرنل عامر نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ کرنل عامر کی تضاد بیانی صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی۔ان کے مطابق حملہ آور وںکا ایک ساتھی کھیتوں میں جارہا تھا ایف سی اہلکاروں نے ان کو دیکھ کر فائرنگ کردی۔ عالمی قوانین کے مطابق ایک فرار ہوتے ملزم کو خبردار کرنا لازمی ہے اس کے لیے عمومی طور پر ہوائی فائرنگ کا سہارا لیا جاتا ہے اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو آخری حربے کے طور پر ملزم کو زخمی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب اگر کرنل شہزادہ عامر کی گفتگو سنی جائے تو وہاں مکمل رعونت ملتی ہے۔ کثیر القومی ریاست کے علمبردار نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں وکارکنوں کے لیے صرف اس ایک جملے میں بہت کچھ پوشیدہ ہے کہ ”ہم نے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا“یہاںکرنل عامر نے بلوچ پاکستان رشتے کو واضح کردیا ہے ۔
خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ وگرنہ ”ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت“ پھر آتے ہیں کرنل عامر کی طرف۔ فرماتے ہیں فرار ہوتے حملہ آور پر فائرنگ کی گئی گویا ان کو پیچھے سے نشانہ بنایا گیا لیکن اخبارات نے جو تصاویر جاری کیں ان کو دیکھ کر صاف پتہ چلتا ہے کہ بلوچ قومی ہیرو نے بلوچ سنت پر عمل کرتے ہوئے دشمن کی گولیاں اپنے سینے پر برداشت کی ہیں۔ چونکہ شہید کو گولیاں سامنے سے لگی ہیں اس لیے کرنل عامر پر مزید اعتبار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ یقینا شہید مجید نے غلامی کے خلاف لڑنے لڑتے اپنی جان دی۔ اس کی تصدیق بی ایل اے کے ترجمان میرک بلوچ کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ بی ایل کے مطابق ہزاروں بزدل فورسز نے شہید مجید بلوچ کو گھر کے اندر گھیر کر گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر شہید نے مقابلہ کرکے جام شہاد ت نوش کیا۔گویا ایف سی کا مقصد انکو زندہ گرفتار کرنا تھا مگر شہید مجید بلوچ نے قوم کا سرنیچا نہ ہونے دیا اور مقابلہ کرکے شہید ہونا پسند کیا۔ کاش جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی بھی اس جرات کا مظاہرہ کرتے کم از کم آج گجر کو ہم پر ہنسنے کا موقع تو نہ ملتا۔
اس پورے منظر نامہ میں ایک چیز واضح نہیں ہوتی وہ یہ کہ شہید مجید بلوچ تنہا تھے یا ان کے ساتھ دیگر فکری دوست بھی اس خونی معرکے میں شامل تھے۔ ایف سی کمانڈنٹ جھوٹ پر جھوٹ بول کر اپنا اعتبار کھوچکے ہیں اس لیے مجبوراً ہمیں بی ایل اے سے رجوع کرنا پڑے گا مگر بی ایل اے بھی اس حوالے سے مکمل خاموش ہے۔بی ایل اے نے غالباً اس لیے دیگر سرمچاروں کا تذکرہ نہں کیا کیونکہ پھر اس سے ان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں یا شاید مجید بلوچ واقعی اس وقت تنہا تھے۔ شہید مجید بلوچ اگر اکیلے لڑرہے تھے تو ہمیں ان کی دلیری اور بہادری کو ”سرخ سلام“ پیش کرنا ہوگا اور اگر ان کے ساتھ دیگر دوست بھی تھے۔ اور انہوںنے خود کو قربان کرکے اپنے فکری ساتھیوں کی قیمتی جان بچائی تو ان کے اس ایثار اور قربانی کو میں چاہتے ہوئے بھی بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ اس جذبے کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں بس محسوس کرسکتے ہیں ہم اس کو۔
ایف سی کی تضاد بیانی قابل ملامت نہیں بلکہ قابل رحم ہے کیونکہ وہ مجید بلوچ کو شہید کرنے کے باوجود ان کے نظریے کو شکست دینے میں ناکام رہی۔ دوسری جانب ایف سی کی تضاد بیانی کے حوالے سے دلچسپ واقعہ بلوچستان اسمبلی میں پیش آیا۔ رکن بلوچستان اسمبلی آغا عرفان کریم نے معصومیت سے کہا کہ ہم نے ایف سی کو اپنی حفاظت کے لیے بلایا مگر وہ ہمارے ہی لوگوں کو ماررہی ہے۔ اب کوئی اس گم کردہ راہ سے پوچھے ایف سی کو آپ نے کس سے کس کی حفاظت کے لیے تعینات کیا؟؟؟۔ ملک آپ کا ، لوگ آپ کے، حفاظت غیر ملکی ایف سی کرے گی۔ جان کی امان پائے بغیر آغا صاحب سے پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ جناب آپ کو کس سے خطرہ ہے جس کا مداوا ایف سی ہے؟ ۔ آغا عرفان کریم نے غالباً بلوچستان اسمبلی کے ماتمی ماحول کو زعفران زار بنانے کے لیے اس لطیفے کا سہارا لیا ہوگا۔
Saturday, March 20, 2010
مالک ریکی کی گرفتاری کا معمہ
ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے بعد جب امریکہ نے افغانستان کے پہاڑوںکو سرمہ بنانے کا عمل شروع کرکے مذہبی شدت پسندوں کو نئی زندگی دی تو اسی دوران زاہدان سے تعلق رکھنے والے مذہبی شدت پسند عبدالمالک ریکی کا ظہور ہوا۔ مالک ریکی کی تنظیم جند اللہ نے ایرانی فورسز، سرکاری ملازمین اور گجر شیعوں پر خوفناک حملے شرو ع کردیے۔ زاہدان میں پاسداران انقلاب کی بس، مسجد امیر المومنین، تاسوکی میں ایرانی ملازمین، نوبندیان میں سرکاری عہدیدار اور پشین میں پاسداران انقلاب وہ اہداف ہیں جنہوںنے ایرانی ملاﺅں کی راتوں کی نیندیں حرام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دینی مدرسوں کے پیدوار تیس سالہ مالک ریکی کے بارے میں ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کو امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ البتہ ان تینوں نے ہمیشہ اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ گوکہ ایران اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے میں کبھی کامیاب نہیں رہا تاہم بعض ایسے حالات وواقعات ضرور سامنے آئے جنہوںنے ایران کے الزامات کو ایک حد تک درست ثابت کروایا لیکن چونکہ ٹھوس ثبوت کبھی منظر عام پر نہ آسکے اس لیے ایران کا الزام ہمیشہ الزام کے دائرے میں مقید رہا۔
دوسال قبل شدید ایرانی دباﺅ کے باعث پاکستان نے مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی کی گرفتاری ظاہر کی۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق حمید ریکی کو پاکستانی خفیہ اداروں نے گفت وشنید کے بہانے دھوکے سے گرفتار کیا تاکہ ایرانی دباﺅ کم کی جاسکے کیونکہ ایران نے سنجیدگی سے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے تعاون نہ کیا تو ایران از خود کارروائی یا گرم تعاقب سے گریزنہیں کرے گا۔ دومہینے تک ایران، پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں مذاکرات ہوتے رہے بالآخر طویل مذاکرات کے بعد بعض سمجھوتوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ عبدالحمید ریکی کو اسلام آباد سے تہران پہنچادیا گیا۔
ایرانی انٹیلی جنس کے مختلف تفتیشی مراحل سے گزرنے کے بعد جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی نے ایرانی میڈیا پر آکر متعدد واقعات کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ مالک ریکی کو عالمی قوتوں کی مدد وحمایت حاصل ہے۔ حمید ریکی نے میڈیا کے ذریعے ایرانی عوام سے معافی
مانگ کر جند اللہ سے تعلق پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ حمید ریکی چونکہ ایرانی انٹیلی جنس کے زیرِ حراست تھے اس لیے ان کے اعترافات اور ظہار شرمندگی کو شدید تشدد کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم حمید ریکی کی گرفتاری نے ایران کے حوصلوں کو کسی قدر بلند کردیا۔
ایران کی خوش فہمی زیادہ دیر تک برقرا رنہ رہی مالک ریکی نے جلد اپنی توانائیوں کو مجتمع کرکے پہلے سراوان چھاﺅنی پھر پشین میں پاسداران انقلاب کو خود کش دھماکوں میں اڑادیا۔
پشین دھماکے نے ایران کو لرزا دیاکیونکہ مذکورہ دھماکے میں طاقتورترین ایرانی فورس پاسداران انقلاب کے اہم ترین کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایران نے جوابی طور پر مشرقی ومغربی بلوچستان کی سرحد بند کردی اور ایک بار پھر پاکستان کو گرم تعاقب کی دھمکی دی گئی۔ ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی اور وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی نے یکے بعد دیگرے پاکستان کے دورے کئے۔پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملاقات میں ایرانی حکام نے سخت موقف اپنایا اور ایک بار پھر مالک ریکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا آمدہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے معذوری ظاہر کی یوں یہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ البتہ گاہے بگا ہے ان نکات پر ایران وپاکستان کے درمیان بات چیت
جاری رہی۔
فروری 2010ءکو امریکہ نے ایران، پاکستان سرحد سے متصل افغان بلوچ علاقے ہلمند میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے ایران کا تعاون ناگزیر تھا اس لیے ایک بار پھر کابل میں ایران وامریکہ کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ دوسری جانب ایران نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی شروع کردیں۔ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی حکام کو باور کرایا کہ اگر مغربی بلوچستان میں امریکی ایماءپر جند اللہ کی کارروائیاں جاری رہیں تو ایران افغانستان میں عدم تعاون کی پالیسی اختیار کرسکتا ہے جس سے یقینا بھارتی مفادات کو بھی زک پہنچے گی۔ چونکہ مغربی بلوچستان میں بھارتی مفادات پیوست ہیں جن کا دائرہ افغانستان تک پھیلا ہوا ہے اس لیے بھارت نے ایران کو اس حوالے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
کابل میں امریکی وایرانی حکام کے درمیان جاری مذاکرات میں بھارت ، نیٹو اور سعودی عرب کو بھی شامل کرلیا گیا۔اس مذاکرات میں کیا گفتگوہوئی اور کن کن معاملات پر اتفاق کیا گیا؟ سر دست یہ واضح نہیں البتہ 23فروری 2010ءکو مالک ریکی کی گرفتاری کے اعلان کو ان مذاکرات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کی گرفتاری بلاشبہ تاحال ایک معمہ ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس نے جو ویڈیو جاری کی اس کے مطابق مالک ریکی کو نقاب پوش ایرانی اہلکار ایک جہاز سے اتاررہے ہیں۔ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس ریکی بالکل ہشاش بشاش نظر آرہے ہیں۔ ان کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور وہ اچھے بچوں کی طرح جہاز سے اترتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جہاز سے جب وہ اترتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی نظر آتی ہے جبکہ جہاز میں وہ بغیر ہتھکڑی کے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ایک معمہ ہے کہ مذکورہ ہوائی جہاز میں مالک ریکی کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا تو کیا یہ کوئی چارٹر ہوائی جہاز تھا؟ ۔ اگر یہ کوئی چارٹر ہوئی جہاز تھا تو مالک ریکی کو یہ سہولت کس نے فراہم کی؟پھر اس چارٹر جہاز کی اطلاع ایرانی انٹیلی جنس ذرائع کو کس نے دی؟ ۔کیا ایسا ہوسکتا ہے ایران ایک اڑتے جہاز کو زمین پر اترنے پر مجبور کرکے فضائی قوانین توڑ دے اور امریکہ خاموش رہے؟دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مالک ریکی جہاز کے ذریعے پاکستان کے راستے ایک عرب ملک جارہے تھے ایرانی حکام نے خلیج فارس میں جہاز کو اترنے پر مجبور کیا اور جہاز کی تلاشی کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا جبکہ وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی ایک الگ کہانی سنارہے ہیں ان کے مطابق ریکی کو ایران کے باہر سے ایک طے شدہ آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر ماشاءاللہ شاکری اور ایرانی سرکاری ٹی وی ان کی گرفتاری زاہدان سے ظاہر کررہی ہیں۔ بہر کیف مالک ریکی اور جند اللہ کی طرح ان کی گرفتاری بھی ایک معمہ ہے۔
جند اللہ نے اپنے بیان میں جو الزام لگایا ہے وہ بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ جند اللہ کے مطابق جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کو یورپی، افغان اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے گرفتار کرکے ایران کے حوالے کیا ہے۔ جند اللہ کے اس الزام کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان مسئلے کے تناظر میں امریکہ نے پاکستان کے ذریعے ایران کے بعض تحفظات ختم کرنے کے لیے مالک ریکی کا پتہ صاف کروایا۔ اس دلیل کی حمایت ایران کے اس الزام میں بھی پوشیدہ ہے کہ مالک ریکی گرفتاری سے قبل امریکہ کے ایک اڈے پر موجود تھے۔مذکورہ امریکی اڈہ جس کا تذکرہ کیا جارہا ہے وہ کون سا ہوسکتا ہے؟۔ خاران میں شمسی ایئر پورٹ جو امریکہ کے زیرِ استعمال ہے یا قطر میں واقع امریکی اڈہ۔؟ تاحال یہ بھی واضح نہیں البتہ مالک ریکی سے برآمد ہونے والا پاکستانی شناختی کارڈ جس پر عارضی پتہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور مستقل پتہ مند، ڈسٹرکٹ کیچ بلوچستان درج ہے بعض سوالات کا خود جواب ہے ۔ حتمی جواب کے لیے بھی شاید مزید انتظار نہ کرنا پڑے۔
مالک ریکی کی گرفتاری کے اثرات نہ صرف یہ کہ خطے کی سیاست بلکہ بلوچ تحریک آزادی پر بھی مرتب ہوں گے۔ ان اثرات پر آئندہ کسی کالم میں بحث کی جائے گی۔
دینی مدرسوں کے پیدوار تیس سالہ مالک ریکی کے بارے میں ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان کو امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ البتہ ان تینوں نے ہمیشہ اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ گوکہ ایران اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے میں کبھی کامیاب نہیں رہا تاہم بعض ایسے حالات وواقعات ضرور سامنے آئے جنہوںنے ایران کے الزامات کو ایک حد تک درست ثابت کروایا لیکن چونکہ ٹھوس ثبوت کبھی منظر عام پر نہ آسکے اس لیے ایران کا الزام ہمیشہ الزام کے دائرے میں مقید رہا۔
دوسال قبل شدید ایرانی دباﺅ کے باعث پاکستان نے مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی کی گرفتاری ظاہر کی۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق حمید ریکی کو پاکستانی خفیہ اداروں نے گفت وشنید کے بہانے دھوکے سے گرفتار کیا تاکہ ایرانی دباﺅ کم کی جاسکے کیونکہ ایران نے سنجیدگی سے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے تعاون نہ کیا تو ایران از خود کارروائی یا گرم تعاقب سے گریزنہیں کرے گا۔ دومہینے تک ایران، پاکستان اور امریکہ کے درمیان افغانستان میں مذاکرات ہوتے رہے بالآخر طویل مذاکرات کے بعد بعض سمجھوتوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ عبدالحمید ریکی کو اسلام آباد سے تہران پہنچادیا گیا۔
ایرانی انٹیلی جنس کے مختلف تفتیشی مراحل سے گزرنے کے بعد جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کے بھائی حمید ریکی نے ایرانی میڈیا پر آکر متعدد واقعات کی نہ صرف ذمہ داری قبول کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ مالک ریکی کو عالمی قوتوں کی مدد وحمایت حاصل ہے۔ حمید ریکی نے میڈیا کے ذریعے ایرانی عوام سے معافی
مانگ کر جند اللہ سے تعلق پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ حمید ریکی چونکہ ایرانی انٹیلی جنس کے زیرِ حراست تھے اس لیے ان کے اعترافات اور ظہار شرمندگی کو شدید تشدد کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے تاہم حمید ریکی کی گرفتاری نے ایران کے حوصلوں کو کسی قدر بلند کردیا۔
ایران کی خوش فہمی زیادہ دیر تک برقرا رنہ رہی مالک ریکی نے جلد اپنی توانائیوں کو مجتمع کرکے پہلے سراوان چھاﺅنی پھر پشین میں پاسداران انقلاب کو خود کش دھماکوں میں اڑادیا۔
پشین دھماکے نے ایران کو لرزا دیاکیونکہ مذکورہ دھماکے میں طاقتورترین ایرانی فورس پاسداران انقلاب کے اہم ترین کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایران نے جوابی طور پر مشرقی ومغربی بلوچستان کی سرحد بند کردی اور ایک بار پھر پاکستان کو گرم تعاقب کی دھمکی دی گئی۔ ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی اور وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی نے یکے بعد دیگرے پاکستان کے دورے کئے۔پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر داخلہ رحمان ملک سے ملاقات میں ایرانی حکام نے سخت موقف اپنایا اور ایک بار پھر مالک ریکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا آمدہ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے اس حوالے سے معذوری ظاہر کی یوں یہ مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ البتہ گاہے بگا ہے ان نکات پر ایران وپاکستان کے درمیان بات چیت
جاری رہی۔
فروری 2010ءکو امریکہ نے ایران، پاکستان سرحد سے متصل افغان بلوچ علاقے ہلمند میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے ایران کا تعاون ناگزیر تھا اس لیے ایک بار پھر کابل میں ایران وامریکہ کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔ دوسری جانب ایران نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں بھی شروع کردیں۔ایرانی وزیر خارجہ منوچہر متقی نے اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی حکام کو باور کرایا کہ اگر مغربی بلوچستان میں امریکی ایماءپر جند اللہ کی کارروائیاں جاری رہیں تو ایران افغانستان میں عدم تعاون کی پالیسی اختیار کرسکتا ہے جس سے یقینا بھارتی مفادات کو بھی زک پہنچے گی۔ چونکہ مغربی بلوچستان میں بھارتی مفادات پیوست ہیں جن کا دائرہ افغانستان تک پھیلا ہوا ہے اس لیے بھارت نے ایران کو اس حوالے سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
کابل میں امریکی وایرانی حکام کے درمیان جاری مذاکرات میں بھارت ، نیٹو اور سعودی عرب کو بھی شامل کرلیا گیا۔اس مذاکرات میں کیا گفتگوہوئی اور کن کن معاملات پر اتفاق کیا گیا؟ سر دست یہ واضح نہیں البتہ 23فروری 2010ءکو مالک ریکی کی گرفتاری کے اعلان کو ان مذاکرات سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کی گرفتاری بلاشبہ تاحال ایک معمہ ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس نے جو ویڈیو جاری کی اس کے مطابق مالک ریکی کو نقاب پوش ایرانی اہلکار ایک جہاز سے اتاررہے ہیں۔ پینٹ اور شرٹ میں ملبوس ریکی بالکل ہشاش بشاش نظر آرہے ہیں۔ ان کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی اور وہ اچھے بچوں کی طرح جہاز سے اترتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جہاز سے جب وہ اترتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی نظر آتی ہے جبکہ جہاز میں وہ بغیر ہتھکڑی کے نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ایک معمہ ہے کہ مذکورہ ہوائی جہاز میں مالک ریکی کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا تو کیا یہ کوئی چارٹر ہوائی جہاز تھا؟ ۔ اگر یہ کوئی چارٹر ہوئی جہاز تھا تو مالک ریکی کو یہ سہولت کس نے فراہم کی؟پھر اس چارٹر جہاز کی اطلاع ایرانی انٹیلی جنس ذرائع کو کس نے دی؟ ۔کیا ایسا ہوسکتا ہے ایران ایک اڑتے جہاز کو زمین پر اترنے پر مجبور کرکے فضائی قوانین توڑ دے اور امریکہ خاموش رہے؟دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مالک ریکی جہاز کے ذریعے پاکستان کے راستے ایک عرب ملک جارہے تھے ایرانی حکام نے خلیج فارس میں جہاز کو اترنے پر مجبور کیا اور جہاز کی تلاشی کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا جبکہ وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی ایک الگ کہانی سنارہے ہیں ان کے مطابق ریکی کو ایران کے باہر سے ایک طے شدہ آپریشن کے ذریعے گرفتار کیا گیا۔ پاکستان میں تعینات ایرانی سفیر ماشاءاللہ شاکری اور ایرانی سرکاری ٹی وی ان کی گرفتاری زاہدان سے ظاہر کررہی ہیں۔ بہر کیف مالک ریکی اور جند اللہ کی طرح ان کی گرفتاری بھی ایک معمہ ہے۔
جند اللہ نے اپنے بیان میں جو الزام لگایا ہے وہ بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔ جند اللہ کے مطابق جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی کو یورپی، افغان اور پاکستانی انٹیلی جنس اداروں نے گرفتار کرکے ایران کے حوالے کیا ہے۔ جند اللہ کے اس الزام کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغان مسئلے کے تناظر میں امریکہ نے پاکستان کے ذریعے ایران کے بعض تحفظات ختم کرنے کے لیے مالک ریکی کا پتہ صاف کروایا۔ اس دلیل کی حمایت ایران کے اس الزام میں بھی پوشیدہ ہے کہ مالک ریکی گرفتاری سے قبل امریکہ کے ایک اڈے پر موجود تھے۔مذکورہ امریکی اڈہ جس کا تذکرہ کیا جارہا ہے وہ کون سا ہوسکتا ہے؟۔ خاران میں شمسی ایئر پورٹ جو امریکہ کے زیرِ استعمال ہے یا قطر میں واقع امریکی اڈہ۔؟ تاحال یہ بھی واضح نہیں البتہ مالک ریکی سے برآمد ہونے والا پاکستانی شناختی کارڈ جس پر عارضی پتہ شاہ فیصل کالونی کراچی اور مستقل پتہ مند، ڈسٹرکٹ کیچ بلوچستان درج ہے بعض سوالات کا خود جواب ہے ۔ حتمی جواب کے لیے بھی شاید مزید انتظار نہ کرنا پڑے۔
مالک ریکی کی گرفتاری کے اثرات نہ صرف یہ کہ خطے کی سیاست بلکہ بلوچ تحریک آزادی پر بھی مرتب ہوں گے۔ ان اثرات پر آئندہ کسی کالم میں بحث کی جائے گی۔
لاپتہ زندہ درگور اور بے حس معاشرہ
تاریخ اسلام کے مطابق قبل ا ز اسلام بعض عرب قبائل اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کرتے تھے بعد ازاں پیغمبر اسلام نے اس غیر انسانی روایت کو خلاف اسلام قرار دے کر اس پرپابندی عائد کردی۔ شار حین ومورخین اسلام اس روایت شکنی کو فخر یہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔یقینا کسی کو زندہ درگور کرنا انتہائی غلیظ ومکروہ فعل ہے مگر پاکستانی، شارحین ومورخین اسلام کے قول وفعل میں تضاد اس غیر انسانی روایت سے بھی ہزار گنا مکروہ فعل ہے۔ کیا آج تک کسی نے سنایا دیکھا کہ کوئی مبلغ اسلام ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ یعنی زندہ درگو ر بلوچوں کے حق میں آوا زاٹھا کر سنت پیغمبری کو جلا بخشے؟
پاکستانی نصاب ومیڈیا کے مطابق پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک اسلامی ریاست میں لوگوں کو ”زندہ درگور“کرنے کا عمل پوری آب وتاب سے جاری ہے مگر کسی کونے کھدرے سے آواز حق بلند نہیں ہوتی۔ البتہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہمارے عہد کے اس انسانی المیہ کے حوالے سے ایک کیس زیرِ سماعت ہے۔ جس کی سربراہی روبہ زوال کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے جسٹس جاوید اقبال کررہے ہیں۔موجودہ عدلیہ کی معطلی وبحالی سے قبل” زندہ درگوروں“کے لواحقین کی اشک شوئی کا بارگراں منکرِ مشرف جسٹس افتخار چوہدری کے کندھو ںپر تھا۔ معطلی وبحالی کے طویل سفر کے اختتام کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس سنگ گراں سے خود کو بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر دور رکھا اور جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ کو یہ بار سونپ دیا۔جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک بار اپنے ریمارکس میں اس مسئلے کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا مگر وائے افسوس!۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری میں تاخیر جیسے شعبہ جاتی معاملے میں جسٹس شاکر اللہ جان چیف جسٹس کو لارجر بنچ تشکیل دینے کی درخواست کرتے ہیں جبکہ زندہ درگوروں کا معاملہ 3رکنی بینچ کے حوالے ہے۔
بلوچی میں کہتے ہیں کہ ”کوریں چماں پٹے ارس باز انت“سو ہم مجبور ومقہور بلوچوں نے بھی موہوم امیدوں کی بجھتی شمع کو بجھنے نہ دیا۔ ”رحمان“ ڈکیت نہیں ملک نے سپریم کورٹ کے ساتھ کسی نئے تصادم سے بچنے کے لیے ایک ”اعلیٰ“ اور ”سطحی“اجلاس طلب کی جس میں خفیہ اداروں کے سربراہان نے بھی اپنے جاہ وجلال کے ساتھ شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کی جائیں گی۔ کس کے خلاف؟جواب ندارد۔مزید ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے، مدعی بھی منصف ٹھہر گئے۔نجانے کیوں کان بجتے ہیں ”جائیں تو جائیں کہاں“۔ دوسری جانب آئی جی بلوچستان کے فرمودات ایک الگ طوطا مینا کی کہانی سنا تے ہیں۔ جناب کا فرمانا ہے کہ ”لاپتہ افراد کے ورثاءدرخواست دیتے وقت دیکھیں کہ جس افسر یا ایف سی کے میجر کو وہ نامزد کرتے ہیں وہ یا تو دوسال پہلے رہا ہے اور اب اس کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ “اس چوں چوں کے مربے سے کوئی نتیجہ خاک نکلے جو نکلے بس پریشان نکلے۔
اس بات کو ایک عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتا ہوگا کہ کسی فرد کو گرفتار کرکے لاپتہ کرنے کا عمل کسی خاص فرد کا اپنا ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا یہ تو ایک ادارہ جاتی پالیسی ہوتی ہے اور اس میں پوری مشینری ملوث ہوتی ہے۔ مگر آئی جی بلوچستان زندہ درگورلواحقین کو طوطامینا، گل بکاﺅلی اور الف لیلیٰ کے قصے سنارہے ہیں۔یقینا ان کہانیوں کے تخلیق کاروہ ہیں جو ”اعلیٰ “ اور ”سطحی “ اجلاسوں میں نخوت سے بیٹھ کر منرل واٹر پیتے اور بیش قیمت سگار کاکش لگاتے ہیں یا وہ ہیں جو جدال وقتال کے درمیان ایک پرسکون گوشے میں ”نہاری“ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہمارے عہد کے عظیم ادیب گار سیا مارکیز نے شاید انہی حالات وواقعات سے متاثر ہوکر شہرہِ آفاق افسانہ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“تخلیق کی۔ افسانے میں دو افراد ایک شریف اور ملنسار نوجوان کے قتل کا منصوبہ بناتے ہیں۔ اس منصوبے کی اطلاع پورے شہر کو ہوتی ہے اور ہر کوئی افسوس کرتا ہے کہ آج اس شریف انسان کی موت واقع ہوجائے گی مگر بے حس معاشرے کے بے حس ارکان اس نوجوان کو خبردار کرنے کی بجائے اس کی موت کا تماشہ دیکھتے ہیں اور بالآخر بے حسی کے ہجوم میں درد مند نوجوان قتل ہوجاتا ہے۔
پاکستانی میڈیا، سیاسی ومذہبی جماعتیں، تبلیغی جماعتیں، عدلیہ، نام ونہاد سول سوسائٹی، وکلائ، انسانی، حقوق کی سینکڑوں تنظیمیں اور عام افراد سب جانتے ہیں لاپتہ افراد کا پتہ کہاں ہے؟وہ کس حال میں ہیں؟ اور ان کا کیا انجام ہوسکتا ہے ؟ ۔ پر سب مہر بہ لب ہیں۔ ایک چینل نے ایک مخصوص جماعت کی کرپشن کا پردہ چاک کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ کوئی جہادی عافیہ صدیقی کو گھر یلو خاتون ثابت کرنے پر جتا ہوا ہے، کوئی نسیم حمید کی بلائیں اتاررہا ہے، کسی کو بھارت دشمنی سے فرصت نہیں مل رہی، کسی نے فکر افغانستان میں سر کھپا یا ہوا ہے، میرا کی شادی، این آر او،کرکٹ ٹیم، پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان کراچی پرقبضے کی جنگ اہمیت اختیار کرگئی۔ گر کچھ نہیں تو صرف ”زندہ در گوروں“ کے لیے سنت پیغمبری پر عمل کرنے والا نہیں۔
نوبت بہ اینجار سید، جو لاپتہ ہیں انکا پتہ ملتا الٹا ایک اور موجود معدوم ہوگیا۔ یعنی پاکستان دوست نیشنل پارٹی کا بلوچ کارکن خیر بخش بھی اپنے اہلِ خانہ کو زندہ درگور کرگیا۔ ہوسکتا ہے آپ سوچ رہے ہوںکہ خیر بخش جو خود لاپتہ ہے وہ کیسے اپنے خاندان کو زندہ درگور کرگیا؟ تو جناب یہ سوال مجھ سے نہیں”رحمان “ڈکیت نہیں ملک سے پوچھیے جو فرماتے ہیں لاپتہ افراد ”ویلنٹائن ڈے“ منارہے ہیں۔حالات وواقعات بتارہے ہیں کہ یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا۔ کیونکہ وہ سپریم کورٹ جو ایف آئی اے اہلکار کی جنبش پر وفاقی وزیر داخلہ کو توہین عدالت کی تلخی سے آشنا کرتی ہے مگر لاپتہ افراد کے حوالے سے ہر بار غلط رپورٹ کے باوجود وہ متعلقہ محکموں پرصرف برہمی کے اظہارپر قناعت کرتی ہے وہاں کسی مثبت نتیجے کی توقع عبث ہے۔ اس کی تصدیق اس امر سے بھی کی جاسکتی ہے کہ ایک جانب لاپتہ افراد کا گرم معاملہ اسلام آباد کی سرد فضاﺅں میں حل کا منتظر ہے دوسری جانب لاپتہ بلوچوں کی فہرست میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ لاپتہ زندہ درگوروں کے معاملے میں سنجیدہ ہو مگر چونکہ پاکستان کا پالیسی ساز اور فیصلہ کن ادارہ احتساب سے ماوراہے اس لیے سپریم کورٹ کو جلد یا بدیر اس سنگ گراں کو چوم کر پیچھے ہٹنا ہوگا ۔ قوی امکان یہی ہے کہ بلوچ سیاسی رہنماﺅں وکارکنوں کی بازیابی خوش فہمی ہی رہے گی۔ البتہ مزید بلوچ سیاسی رہنماﺅں وکارکنوں کی گمشدگی وشہادت یقینی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگاکہ بلوچ جماعتیں جلسہ، جلوسوں ومظاہروں کے سراب سے نکل کر روشن وٹھوس حقیقت کا سامنا کرکے براہِ راست عالمی اداروں سے مکمل دستاویزات کے ساتھ رابطہ کریں۔
پاکستانی نصاب ومیڈیا کے مطابق پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے۔ حیرت انگیز طور پر ایک اسلامی ریاست میں لوگوں کو ”زندہ درگور“کرنے کا عمل پوری آب وتاب سے جاری ہے مگر کسی کونے کھدرے سے آواز حق بلند نہیں ہوتی۔ البتہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہمارے عہد کے اس انسانی المیہ کے حوالے سے ایک کیس زیرِ سماعت ہے۔ جس کی سربراہی روبہ زوال کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے جسٹس جاوید اقبال کررہے ہیں۔موجودہ عدلیہ کی معطلی وبحالی سے قبل” زندہ درگوروں“کے لواحقین کی اشک شوئی کا بارگراں منکرِ مشرف جسٹس افتخار چوہدری کے کندھو ںپر تھا۔ معطلی وبحالی کے طویل سفر کے اختتام کے بعد چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اس سنگ گراں سے خود کو بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر دور رکھا اور جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں سہ رکنی بنچ کو یہ بار سونپ دیا۔جسٹس جاوید اقبال نے لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ایک بار اپنے ریمارکس میں اس مسئلے کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا مگر وائے افسوس!۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری میں تاخیر جیسے شعبہ جاتی معاملے میں جسٹس شاکر اللہ جان چیف جسٹس کو لارجر بنچ تشکیل دینے کی درخواست کرتے ہیں جبکہ زندہ درگوروں کا معاملہ 3رکنی بینچ کے حوالے ہے۔
بلوچی میں کہتے ہیں کہ ”کوریں چماں پٹے ارس باز انت“سو ہم مجبور ومقہور بلوچوں نے بھی موہوم امیدوں کی بجھتی شمع کو بجھنے نہ دیا۔ ”رحمان“ ڈکیت نہیں ملک نے سپریم کورٹ کے ساتھ کسی نئے تصادم سے بچنے کے لیے ایک ”اعلیٰ“ اور ”سطحی“اجلاس طلب کی جس میں خفیہ اداروں کے سربراہان نے بھی اپنے جاہ وجلال کے ساتھ شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام لاپتہ افراد کی ایف آئی آر درج کی جائیں گی۔ کس کے خلاف؟جواب ندارد۔مزید ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے، مدعی بھی منصف ٹھہر گئے۔نجانے کیوں کان بجتے ہیں ”جائیں تو جائیں کہاں“۔ دوسری جانب آئی جی بلوچستان کے فرمودات ایک الگ طوطا مینا کی کہانی سنا تے ہیں۔ جناب کا فرمانا ہے کہ ”لاپتہ افراد کے ورثاءدرخواست دیتے وقت دیکھیں کہ جس افسر یا ایف سی کے میجر کو وہ نامزد کرتے ہیں وہ یا تو دوسال پہلے رہا ہے اور اب اس کا تبادلہ ہوگیا ہے۔ “اس چوں چوں کے مربے سے کوئی نتیجہ خاک نکلے جو نکلے بس پریشان نکلے۔
اس بات کو ایک عام آدمی بھی اچھی طرح سمجھتا ہوگا کہ کسی فرد کو گرفتار کرکے لاپتہ کرنے کا عمل کسی خاص فرد کا اپنا ذاتی فیصلہ نہیں ہوتا یہ تو ایک ادارہ جاتی پالیسی ہوتی ہے اور اس میں پوری مشینری ملوث ہوتی ہے۔ مگر آئی جی بلوچستان زندہ درگورلواحقین کو طوطامینا، گل بکاﺅلی اور الف لیلیٰ کے قصے سنارہے ہیں۔یقینا ان کہانیوں کے تخلیق کاروہ ہیں جو ”اعلیٰ “ اور ”سطحی “ اجلاسوں میں نخوت سے بیٹھ کر منرل واٹر پیتے اور بیش قیمت سگار کاکش لگاتے ہیں یا وہ ہیں جو جدال وقتال کے درمیان ایک پرسکون گوشے میں ”نہاری“ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہمارے عہد کے عظیم ادیب گار سیا مارکیز نے شاید انہی حالات وواقعات سے متاثر ہوکر شہرہِ آفاق افسانہ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“تخلیق کی۔ افسانے میں دو افراد ایک شریف اور ملنسار نوجوان کے قتل کا منصوبہ بناتے ہیں۔ اس منصوبے کی اطلاع پورے شہر کو ہوتی ہے اور ہر کوئی افسوس کرتا ہے کہ آج اس شریف انسان کی موت واقع ہوجائے گی مگر بے حس معاشرے کے بے حس ارکان اس نوجوان کو خبردار کرنے کی بجائے اس کی موت کا تماشہ دیکھتے ہیں اور بالآخر بے حسی کے ہجوم میں درد مند نوجوان قتل ہوجاتا ہے۔
پاکستانی میڈیا، سیاسی ومذہبی جماعتیں، تبلیغی جماعتیں، عدلیہ، نام ونہاد سول سوسائٹی، وکلائ، انسانی، حقوق کی سینکڑوں تنظیمیں اور عام افراد سب جانتے ہیں لاپتہ افراد کا پتہ کہاں ہے؟وہ کس حال میں ہیں؟ اور ان کا کیا انجام ہوسکتا ہے ؟ ۔ پر سب مہر بہ لب ہیں۔ ایک چینل نے ایک مخصوص جماعت کی کرپشن کا پردہ چاک کرنے کا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے۔ کوئی جہادی عافیہ صدیقی کو گھر یلو خاتون ثابت کرنے پر جتا ہوا ہے، کوئی نسیم حمید کی بلائیں اتاررہا ہے، کسی کو بھارت دشمنی سے فرصت نہیں مل رہی، کسی نے فکر افغانستان میں سر کھپا یا ہوا ہے، میرا کی شادی، این آر او،کرکٹ ٹیم، پی پی پی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان کراچی پرقبضے کی جنگ اہمیت اختیار کرگئی۔ گر کچھ نہیں تو صرف ”زندہ در گوروں“ کے لیے سنت پیغمبری پر عمل کرنے والا نہیں۔
نوبت بہ اینجار سید، جو لاپتہ ہیں انکا پتہ ملتا الٹا ایک اور موجود معدوم ہوگیا۔ یعنی پاکستان دوست نیشنل پارٹی کا بلوچ کارکن خیر بخش بھی اپنے اہلِ خانہ کو زندہ درگور کرگیا۔ ہوسکتا ہے آپ سوچ رہے ہوںکہ خیر بخش جو خود لاپتہ ہے وہ کیسے اپنے خاندان کو زندہ درگور کرگیا؟ تو جناب یہ سوال مجھ سے نہیں”رحمان “ڈکیت نہیں ملک سے پوچھیے جو فرماتے ہیں لاپتہ افراد ”ویلنٹائن ڈے“ منارہے ہیں۔حالات وواقعات بتارہے ہیں کہ یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا۔ کیونکہ وہ سپریم کورٹ جو ایف آئی اے اہلکار کی جنبش پر وفاقی وزیر داخلہ کو توہین عدالت کی تلخی سے آشنا کرتی ہے مگر لاپتہ افراد کے حوالے سے ہر بار غلط رپورٹ کے باوجود وہ متعلقہ محکموں پرصرف برہمی کے اظہارپر قناعت کرتی ہے وہاں کسی مثبت نتیجے کی توقع عبث ہے۔ اس کی تصدیق اس امر سے بھی کی جاسکتی ہے کہ ایک جانب لاپتہ افراد کا گرم معاملہ اسلام آباد کی سرد فضاﺅں میں حل کا منتظر ہے دوسری جانب لاپتہ بلوچوں کی فہرست میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔ ہوسکتا ہے کہ سپریم کورٹ لاپتہ زندہ درگوروں کے معاملے میں سنجیدہ ہو مگر چونکہ پاکستان کا پالیسی ساز اور فیصلہ کن ادارہ احتساب سے ماوراہے اس لیے سپریم کورٹ کو جلد یا بدیر اس سنگ گراں کو چوم کر پیچھے ہٹنا ہوگا ۔ قوی امکان یہی ہے کہ بلوچ سیاسی رہنماﺅں وکارکنوں کی بازیابی خوش فہمی ہی رہے گی۔ البتہ مزید بلوچ سیاسی رہنماﺅں وکارکنوں کی گمشدگی وشہادت یقینی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگاکہ بلوچ جماعتیں جلسہ، جلوسوں ومظاہروں کے سراب سے نکل کر روشن وٹھوس حقیقت کا سامنا کرکے براہِ راست عالمی اداروں سے مکمل دستاویزات کے ساتھ رابطہ کریں۔
غلام دارانہ سماج
بعض اوقات، عموماًیہ اوقات بے رحمی سے اوقات یاد دلاتے ہیں، ان اوقات میں ایسا لگتا ہے جیسے بلوچ ہونا ایک ایسا جرم ہے جس کی کوئی معافی اور تلافی نہیںنہ نجانے کیوں جب ایسا لگتا ہے تو ذہن پر قدیم غلام دارانہ سماج کا خاکہ سابننے لگتا ہے۔
غلام مکمل طور پر اپنے آقا کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ غلام کی خوشی، غمی ، کھانا، پینا، سونا ، جاگنا حتیٰ کہ موت پر بھی آقا کا اختیار ہوتا ہے۔ مستقبل چشم ابروکا منتظر اور حال آقا کی خوشنودی پر منحصر ہوتا ہے۔ آقا اچھا کرے یا برا غلام کوہر حال میں شکر گزاری کے جذبات کا مظاہرہ کرکے آقا کا احسان مند ہونا چاہیے۔ معمولی مراعات کے عوض اگر آقا بڑی قربانی کا تقاضہ کرے تو غلام اس کو بھی اپنی خوش بختی مان کر خوشی سے رقص کرے۔
28جنوری 2010ءغربت، افلاس ، منشیات اور آپسی جنگوں کی آما جگاہ لیاری سے چند کلومیٹر دور ایک پرتعیش عمارت میں جسے ”یار“لوگ وزیر اعلیٰ (سندھ)ہاﺅس کہتے ہیں وہاں”پاکستان کھپے“ کے خالق جن کو صدر پاکستان کا ”حادثاتی قلمدان “ بھی حاصل ہے اپنے فرمودات سے قرون وسطیٰ کے غلام دارانہ سماج کی یاد دلارہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے لندن نشین بلاول، بھٹو بن کر لیاری سے انتخاب لڑیں گے۔ جب وہ ایسا فرمارہے تھے اس وقت لیاری کی مجبور اور بے کس ماں”دربی بی “سول
ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رہی تھی۔
دربی بی ، ایک محنت کش بلوچ خاتون ۔ 8جنوری کو تلاش روزگار کے دوران انہیں بس سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کیوں؟؟کیونکہ وہ عرصہ دراز سے بھٹو، بھٹو الاپ رہی تھی۔ اسلام آباد کی خوشگوار فضاﺅں سے وزیراعلیٰ ہاﺅس کے پُرتعیش
ہال تک پہنچنے والے پاکستان کھپے اس غلام خاتون کا علاج کروانے کی بجائے اس پر ایک اور ”بھٹو“مسلط کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ ستم تو دیکھئے! ”بلوچ نمائندہ “اخبار نے اس نوآبادیاتی ذہنیت کو لیاری کے لیے تحفہ قرار دیا۔
پاکستان کھپے نے اپنے غلاموں پر عنایات کی برسات جاری رکھی۔ انہوںنے مسکراتے ہوئے لیاری میں خواتین کے لیے یونیورسٹی بنانے اور ترقیاتی اسکیم شروع کروانے کا اعلان کیا۔ گویا یہ قیمت تھی۔ نوجوان نواز بلوچ کے میت کی۔ نواز بلوچ جو کسی کا دولہا تھا، کسی کی امید، کسی کے بڑھاپے کا نوجوان سہارا، وہ کسی کو چاہتا ہوگا اور کوئی اس کے انتظار میں تھی۔وہ دوست تھا، اس کی یادیں، احساسات، جذبات، خواب اور خواہشات
کہیں پیوست تھیں سب بھٹو مفاد کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ بھٹو اس کے لیے یونیورسٹی تعمیر کرنے کا اعلان کررہا ہے۔جنہوںنے اس کے خاندان، دوست احباب، رشتہ داروں اور ہمسایوں سے اس کو چھین لیا ان سے ،قاتلوں سے مفاہمتی عمل جاری رکھنے کا ہنس ہنس کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”پاکستان کھپے“
اب ، اب بلاول آئے گا بھٹو بن کر۔ گبول پارک میں چلا چلا کر لمبی لمبی تقریر یں کرے گا، وعدے وعید کرے گا، لیاری کے غلاموں کو بتائے گا”جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ پھر ، پھر وہ اسلام آباد اور لندن کے، درمیان سفر کرے گا، لیاری میں منشیات پھیلتی رہے گی، رحمان بلوچ ، ڈکیت کا نام پاکر چوہدریوں کے ہاتھوں قتل ہوتا رہے گا۔
پاکستان کھپے جب لیاری سے اپنے رشتے کا تذکرہ کررہے تھے تو اچانک عبدالخالق فٹبالر عرف خالق ڈاڈا خیالوں پر چھانے لگے۔ گیند کے ساتھ کرتب دکھاتے ہوئے، گول کرتے ہوئے، دادو تحسین وصول کرتے ہوئے، پھر آنکھیں نم ہوگئیں یہ یاد کرکے کہ کس طرح وہ 17اکتوبر کو بھٹو کے لیے کراچی کی سڑکوں پر دھماکے کی نذر ہوگئے۔ آنکھیں مزید تر ہوگئیں جب ذہن خالق کے بے روزگار مگر مایہ ناز فٹبالر بھائی رزاق کی جانب چلا گیا۔ رزاق اور اس کا ضعیف والد استاد چنچو آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ مگر، جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
پاکستان کھپے نے لیاری کی ان سسکتی گلیوں تک جانا بھی گوارا نہ کیا جہاں گزشتہ 6سال سے بے وقت موت رقص کناں ہے۔ نائن زیرو کے طواف کے لیے تیار، بولٹن مارکیٹ کے دکانداروں پر احسان مندی کے لیے کمر بستہ صدر پاکستان کے لیے نہ مقتول فہیم کے غمزدہ خاندان کے لیے وقت تھا، نہ نثار بلوچ کی قربانی کے اعتراف کا۔ وہ وزیراعلیٰ ہاﺅس سے فرمارہے تھے لیاری کے عوام کو رہائشی فلیٹس تقسیم کئے جائیں گے۔ لیاری کے عوام جن کی کراچی میں کوئی عزت نہیں، جن کو زندہ رہنے کی اجازت نہیں، جو قدم قدم پر بھٹو اور ان کے تخلیق کردہ ڈرگ مافیا کے چشم ابرو کے محتاج ہیں ان کو کہاں اور کیسے فلیٹس دیے جائیں گے، ”لیاری کو جہنم بناکر جنت تعمیر کی جائے گی۔“
رینجر ز نے کس کے کہنے پر لیاری پر چڑھائی کی؟ امن کمیٹی کے بدامنی پھیلانے والوں کو اس آپریشن کی قبل از وقت اطلاع کس نے دی؟ رات بھر لیاری کو جاگنے پر کس نے مجبور کیا؟ان تمام سوالوں کا جواب صرف یہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے انتخاب لڑیں گے۔ جتنا خون بہا، رزق خاک ہوا۔ ماں بہنوں کی چادریں پامال ہوئیں،تو کیا ہوا۔
لیاری کے بلوچ ، قرون وسطیٰ کے غلاموں کی طرح شکر گزاری کا مظاہرہ کرکے ہندی فلم تھری ایڈیٹس کے اختتام کا یہ منظر دوہرائیں”جہاں پناہ تسی گریٹ ہو تحفہ قبول کرو“چلیں اب لندن نشین بلاول بھٹو زرداری کے استقبال کی تیاری کریں، ناچیں، جھومیں، دلا تیر بجاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلام مکمل طور پر اپنے آقا کے رحم وکرم پر ہوتا ہے۔ غلام کی خوشی، غمی ، کھانا، پینا، سونا ، جاگنا حتیٰ کہ موت پر بھی آقا کا اختیار ہوتا ہے۔ مستقبل چشم ابروکا منتظر اور حال آقا کی خوشنودی پر منحصر ہوتا ہے۔ آقا اچھا کرے یا برا غلام کوہر حال میں شکر گزاری کے جذبات کا مظاہرہ کرکے آقا کا احسان مند ہونا چاہیے۔ معمولی مراعات کے عوض اگر آقا بڑی قربانی کا تقاضہ کرے تو غلام اس کو بھی اپنی خوش بختی مان کر خوشی سے رقص کرے۔
28جنوری 2010ءغربت، افلاس ، منشیات اور آپسی جنگوں کی آما جگاہ لیاری سے چند کلومیٹر دور ایک پرتعیش عمارت میں جسے ”یار“لوگ وزیر اعلیٰ (سندھ)ہاﺅس کہتے ہیں وہاں”پاکستان کھپے“ کے خالق جن کو صدر پاکستان کا ”حادثاتی قلمدان “ بھی حاصل ہے اپنے فرمودات سے قرون وسطیٰ کے غلام دارانہ سماج کی یاد دلارہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے لندن نشین بلاول، بھٹو بن کر لیاری سے انتخاب لڑیں گے۔ جب وہ ایسا فرمارہے تھے اس وقت لیاری کی مجبور اور بے کس ماں”دربی بی “سول
ہسپتال میں ایڑیاں رگڑ رہی تھی۔
دربی بی ، ایک محنت کش بلوچ خاتون ۔ 8جنوری کو تلاش روزگار کے دوران انہیں بس سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ کیوں؟؟کیونکہ وہ عرصہ دراز سے بھٹو، بھٹو الاپ رہی تھی۔ اسلام آباد کی خوشگوار فضاﺅں سے وزیراعلیٰ ہاﺅس کے پُرتعیش
ہال تک پہنچنے والے پاکستان کھپے اس غلام خاتون کا علاج کروانے کی بجائے اس پر ایک اور ”بھٹو“مسلط کرنے کا اعلان کررہے تھے۔ ستم تو دیکھئے! ”بلوچ نمائندہ “اخبار نے اس نوآبادیاتی ذہنیت کو لیاری کے لیے تحفہ قرار دیا۔
پاکستان کھپے نے اپنے غلاموں پر عنایات کی برسات جاری رکھی۔ انہوںنے مسکراتے ہوئے لیاری میں خواتین کے لیے یونیورسٹی بنانے اور ترقیاتی اسکیم شروع کروانے کا اعلان کیا۔ گویا یہ قیمت تھی۔ نوجوان نواز بلوچ کے میت کی۔ نواز بلوچ جو کسی کا دولہا تھا، کسی کی امید، کسی کے بڑھاپے کا نوجوان سہارا، وہ کسی کو چاہتا ہوگا اور کوئی اس کے انتظار میں تھی۔وہ دوست تھا، اس کی یادیں، احساسات، جذبات، خواب اور خواہشات
کہیں پیوست تھیں سب بھٹو مفاد کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ بھٹو اس کے لیے یونیورسٹی تعمیر کرنے کا اعلان کررہا ہے۔جنہوںنے اس کے خاندان، دوست احباب، رشتہ داروں اور ہمسایوں سے اس کو چھین لیا ان سے ،قاتلوں سے مفاہمتی عمل جاری رکھنے کا ہنس ہنس کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”پاکستان کھپے“
اب ، اب بلاول آئے گا بھٹو بن کر۔ گبول پارک میں چلا چلا کر لمبی لمبی تقریر یں کرے گا، وعدے وعید کرے گا، لیاری کے غلاموں کو بتائے گا”جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ پھر ، پھر وہ اسلام آباد اور لندن کے، درمیان سفر کرے گا، لیاری میں منشیات پھیلتی رہے گی، رحمان بلوچ ، ڈکیت کا نام پاکر چوہدریوں کے ہاتھوں قتل ہوتا رہے گا۔
پاکستان کھپے جب لیاری سے اپنے رشتے کا تذکرہ کررہے تھے تو اچانک عبدالخالق فٹبالر عرف خالق ڈاڈا خیالوں پر چھانے لگے۔ گیند کے ساتھ کرتب دکھاتے ہوئے، گول کرتے ہوئے، دادو تحسین وصول کرتے ہوئے، پھر آنکھیں نم ہوگئیں یہ یاد کرکے کہ کس طرح وہ 17اکتوبر کو بھٹو کے لیے کراچی کی سڑکوں پر دھماکے کی نذر ہوگئے۔ آنکھیں مزید تر ہوگئیں جب ذہن خالق کے بے روزگار مگر مایہ ناز فٹبالر بھائی رزاق کی جانب چلا گیا۔ رزاق اور اس کا ضعیف والد استاد چنچو آج بھی انصاف کے متلاشی ہیں۔ مگر، جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
پاکستان کھپے نے لیاری کی ان سسکتی گلیوں تک جانا بھی گوارا نہ کیا جہاں گزشتہ 6سال سے بے وقت موت رقص کناں ہے۔ نائن زیرو کے طواف کے لیے تیار، بولٹن مارکیٹ کے دکانداروں پر احسان مندی کے لیے کمر بستہ صدر پاکستان کے لیے نہ مقتول فہیم کے غمزدہ خاندان کے لیے وقت تھا، نہ نثار بلوچ کی قربانی کے اعتراف کا۔ وہ وزیراعلیٰ ہاﺅس سے فرمارہے تھے لیاری کے عوام کو رہائشی فلیٹس تقسیم کئے جائیں گے۔ لیاری کے عوام جن کی کراچی میں کوئی عزت نہیں، جن کو زندہ رہنے کی اجازت نہیں، جو قدم قدم پر بھٹو اور ان کے تخلیق کردہ ڈرگ مافیا کے چشم ابرو کے محتاج ہیں ان کو کہاں اور کیسے فلیٹس دیے جائیں گے، ”لیاری کو جہنم بناکر جنت تعمیر کی جائے گی۔“
رینجر ز نے کس کے کہنے پر لیاری پر چڑھائی کی؟ امن کمیٹی کے بدامنی پھیلانے والوں کو اس آپریشن کی قبل از وقت اطلاع کس نے دی؟ رات بھر لیاری کو جاگنے پر کس نے مجبور کیا؟ان تمام سوالوں کا جواب صرف یہی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے انتخاب لڑیں گے۔ جتنا خون بہا، رزق خاک ہوا۔ ماں بہنوں کی چادریں پامال ہوئیں،تو کیا ہوا۔
لیاری کے بلوچ ، قرون وسطیٰ کے غلاموں کی طرح شکر گزاری کا مظاہرہ کرکے ہندی فلم تھری ایڈیٹس کے اختتام کا یہ منظر دوہرائیں”جہاں پناہ تسی گریٹ ہو تحفہ قبول کرو“چلیں اب لندن نشین بلاول بھٹو زرداری کے استقبال کی تیاری کریں، ناچیں، جھومیں، دلا تیر بجاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جند اللہ اور بلوچ نیشنلزم
مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کے مہیب سائے عقل ، سائنس اور علمی وفکری نشونما کی راہیں مسدود کرکے معاشرے کو سماجی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کے انسانیت کش دلدل میں دھکیل دیتی ہےں۔ ملا گزیرہ معاشرہ اندرونی شکست وریخت کا شکار ہوکر افراد کو تصوراتی موشگافیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے۔ بے گانگی اور خود فریبی کا شکار معاشرہ اس بے خبر کبوتر کی مانند ہوتا ہے جس پر جھپٹنے کے لیے بھوکی بلی کو زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑتی۔
تاریخ انسانی شاہد ہے ایسے معاشروں کو ہمیشہ ”سامراجی “ بلیوں کی ہوس کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ قبل از نشاة الثانیہ کی ”مسیحی“ دنیا ہو یا آج کی” اسلامی“ دنیا ، قدیم بابل ونینواہوں یا دور جدید کے زاہدان وکابل ہر جگہ استعماریت کو پروہتوں، پادریوں اور ملاﺅں کی معاونت حاصل رہی ہے۔ یہ معاونت ہمیشہ خدا اور پیغمبروں کے مقدس سمجھے جانے والے ناموں کے پردے میں ہوتی رہی ہے۔
چونکہ استعماریت کو سب سے بڑا خطرہ علمی وسائنسی نظریات کے پھل دار درختوں سے ہے اس لیے استعمار نے مذہبی بنیاد پرستی کے کانٹے دار جھاڑیوں کو دشمن قرار دے کر ان کے خلاف فرضی لڑائیاں لڑیں مگر درپردہ ان کو موجودگی کا جواز فراہم کیا تاکہ انسانوں کے استحصال کو سہل اور ممکن بنایا جاسکے۔
تاریخ کے صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح قومی آزادی، سوشلزم ، آزادی نسواں اور نسل پرست مخالف تحریکوں کے خلاف مذہبی بنیاد پرستی کے ہتھیار کو استعمال کیاگیا۔ آج بھی یہ سامراج پسند مظاہر ہر جگہ اور ہر وقت دیکھے جاسکتے ہیں۔
علم دوست قارئین بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی نے کس عیاری سے ” اہل کتاب بھائی“ امریکہ کی خواہش پر مارکسزم کی اعلیٰ تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ”مذہب انسانوں کے لیے افیون ہے “ جیسے ایک جملے کو بنیاد بنا کر مارکسزم کی غلط تشریح کی۔بھوک، افلاس اور معاشی نابرابری کے خلاف جدوجہد کا درس دینے والے مارکسی نظریات کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل کرکے عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کیا گیا اور اس اشتعال کو پھر انہی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل دنیا بھر میں مختلف شکل وصورت کے ساتھ بار بار دہرایا گیا۔ آج بھی زاہدان، چابہار، بمپور اور سراوان کے بلوچ شہروں، ریگزاروں ، نخلستانوں اور پہاڑوں میں یہ پُرفریب ڈرامہ دکھایا جارہا ہے۔
بلوچ تحریک آزادی جوکہ براہِ راست استعماریت سے متضاد ہے اس سے بلوچوں(مغربی بلوچستان کے ) کو دور رکھنے کے لیے ”جند اللہ “کا بت تراشا گیا۔ پاسدارانِ انقلاب ایران پر بے معنی حملے کرواکے اس بت کو مقدس روپ میں ڈھالا گیا بالکل سامری جادوگر کے ”بچھڑے“ کی طرح۔ عوامی مقبولیت اور تقدس حاصل کرنے کے بعد سامراجی مددو حمایت سے جند اللہ نے بلوچ گجر، بلوچ پنجابی اور کالونی اور کالونائزر کے درمیان موجود حقیقی تضاد کو چھپا کر شیعہ سنی کے غیر منطقی تضاد کی حمایت میں کامیاب پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا۔
گوکہ بعض بر خود غلط بلوچوں کا موقف ہے کہ جند اللہ بلوچ قومی حقوق کے حصول کی جدوجہد کررہی ہے خود جند اللہ نے بھی بعض مواقع پر انہی خیالات کا اظہار کیا مگر بلوچ قومی حقوق کا شیعہ مذہب سے کیا تعلق؟۔ زاہدان میں مسجد امیر المومنین کو خود کش دھماکہ کا نشانہ بنانا چہ معنی دارد ؟ ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس خود کش حملے کے بعد زاہدان میں بلوچ اور گجر شیعوں نے مشترکہ ریلی نکالی اور اس ریلی میں سنیوں، سعودی عرب اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی گئی، حتیٰ کہ بلوچ امام جمعہ زاہدان مولانا عبدالحمید کو منافق کے الفاظ سے پکارا گیا۔ اس ریلی کے بعد سنی بلوچوں کے جذبات بھڑک اٹھے جس سے مولانا عبدالحمید بلوچ کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا ملا۔ اس تمام تر صورتحال میں کس کو فائدہ اور کس کا نقصان ہوا؟
سیکولر بلوچ قوم پرستی جو کہ رنگ ، نسل، زبان، قبائلیت اور فرقہ واریت سے ماورا بلوچ قومی تشکیل کا تقاضہ کرتی ہے جند اللہ کی کارروائیوں سے اسے سخت ضعف پہنچا ہے۔ دوسری جانب شیعہ ازم کی بنیادوں پر استوار ایرانی نوآبادیاتی ریاست کو اپنی موجودگی کا مضبوط جواز فراہم ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان تنگ نظر بلوچ علمائے دین کو بھی پروانہ بحالی جاری ہوا جنہوںنے بعد از انقلاب خمینی بلوچ نوجوانوں کے قتال میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں یہ نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر مشرقی بلوچستان میں پنجابی آباد کا ر کا قتل جائز ہے تو مغربی بلوچستان میں گجر کا قتل کیوں ناجائز ہے؟ نکتہ تو قابل غور ہے مگر اس کو وسیع تناظر میں پرکھا جانا چاہیے۔ مشرقی بلوچستان میں پنجابی آباد کار بلاتخصیص نشانہ نہیں بنائے جارہے بلکہ بلوچ مسلح تنظیموں اور بلوچ حریت پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کے بقول سرمچار صرف ان پنجابی آباد کاروں کو نشانہ بناتے ہیں جو سرکار سے مل کر بلوچ قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ٹھہرتے ہیں اور ان کارروائیوں میں نہ صرف پنجابی آباد کار بلکہ بلوچ بھی ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آتے ہیں۔ روزنامہ توار کے 22دسمبر 2009ءکے ادراتی صفحات پر کالم نگار رامین بلوچ نے اپنے کالم”بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ، اثرات، اسباب، حل“میںاس حوالے سے بعض سائنسی وعلمی نکات اٹھائے ہیں۔ان کے مطابق ”بلوچ سرمچار یہ حقیقت بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے خلاف قابض ریاست کے پاس ایک ہی موثر ہتھیار ”جاسوسی کا نظام ونیٹ ورک “ ہے۔ اس لیے بلوچ سرمچار بڑی جان فشانی سے خفیہ اداروں کے نیٹ ورک کا پتہ لگا کر انہیں ہدف بناتے ہیں جس سے قابض ریاست اور اس کے حلقہ بگوش قوتوں کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ “ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے باعث جاسوسی نیٹ ورک اور پاکستان کی سرکاری مشینری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق اسلام آباد حکومت بلوچستان میں پنجابی افسران کی تعیناتی کا فیصلہ واپس لینے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔(3جنوری 2010روزنامہ توار)گویا مشرقی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ گوکہ پاکستانی میڈیا اور سیاستدان تواتر کے ساتھ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ بلوچستان میں نسلی بنیادوں پر پنجابی کو نشانہ بنایا جارہا ہے مگر سردست یہ پروپیگنڈہ کامیابی سے کوسوں دور ہے۔ دوسری جانب مغربی بلوچستان میں معاملہ یکسر مختلف ہے ۔ بم کرمان شاہراہ یا نوبندیان ، چابہار شاہراہ کی خونی واردات ہو یا واقعہ تاسو کی یا زاہدان کی جامع مسجد امیر المومنین کے اہل تشیع نمازیوں کو خود کش دھماکے کے ذریعے اڑانے کی غیر سائنسی کارروائی ہو۔جند اللہ کے ”سنی مجاہدین“ نے ہر جگہ مذہبی بنیاد پر گجر کو نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے سنی پسندی کا رجحان پیدا ہوا نتیجتاً گجر بلوچ تضاد کی جڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اوربلوچ قومی ارتقاءکی رفتار نہایت ہی سست ہوگئی۔ مغربی بلوچستان کے عوام نے اپنے رشتے بجائے مشرقی بلوچستان کی بلوچ تحریک کے سعودی عرب کے سامراج پسند وہابی حکمرانوں اور افغانستان کے خرد دشمن طالبان سے استوار کرنا شروع کردیے۔ مغربی بلوچستان میں ایرانی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جو اکا دکا آوازیں تھیں ان کو بھی جند اللہ کی لایعنی کارروائیوں اورخود کش دھماکوں نے خاموش کردیا۔
اس تمام تناظر میں بظاہر بلوچ آئمہ کرام ، غیر جانبدار اور ایرانی آیت اللہ حکمران جند اللہ کے حریف بن کر سامنے آئے۔ مگر بغور تجزیہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس ٹرائیکا نے بلوچ نیشنل ازم کے خلاف خاموشی اتحاد کرکے موجودہ صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کی کوشش کی۔ بلوچ آئمہ کرام نے اپنے خطبات جمعہ میں اسلام کی سربلندی کی آڑ لے کر جند اللہ کی کارروائی کو حق بجانب اور مالک ریکی کی حمایت میں غیر محسوس طور پر رائے عامہ ہموار کیا جبکہ ایرانی حکومت نے زابل مدرسہ کی مسماری، علمائے کرام کی گرفتاری اورپہرہ(ایرانشہر)میں مدرسے کے طالبعلموں کے ہاتھ پیر کاٹ کر عوام کو باور کروا یا کہ مالک ریکی کے نظریات کلی طور پر درست ہیں۔ اس ٹرائیکا کے غیر اعلانیہ اتحاد کے باعث بلوچ معاشرے کے بانجھ پن میں مزید اضافہ ہوا۔
بلوچ معاشرے میں جند اللہ کی قدر وقیمت میں اضافہ کا ایک اور سبب اس کا پراسرا ر ہونا اور طاقت ورنظر آنا ہے۔ زاہدان سمیت بلوچستان بھر میں یہ خیال عام ہے کہ مالک ریکی ماورائی قوتوں کا حامل ہے وہ ایرانی خفیہ ادارے کے ہوشیار اہلکار کو دھوکہ دے کر کبھی بھی اور کہیں بھی دھماکہ کرسکتا ہے، مسلح فوجی اہلکاروں کو اغواءکرسکتا ہے۔ اور مرکزی شاہراﺅں کو گھنٹوں بلاک کرکے ریاستی رٹ کو چیلنج کرسکتا ہے۔ بلاشبہ مالک ریکی نے یہ سب کچھ کر دکھایا ہے مگر اس کے پس پشت ماورائی طاقتوں کے برخلاف ان قوتوں کے نشانات ملتے ہیں جنہوںنے قبل ازیں اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے اخوان المسلمین ، صدام حسین، خمینی، طالبان اور دیگر عفریت تخلیق کئے اور بعد ازاں ان کے خلاف فرضی جنگ کا آغاز کردیا۔
ایک امریکی اخبار کے مطابق ایران کو اندرونی پر غیر مستحکم کرنے کے لیے سی آئی اے کے زیرِ اہتمام ایرانی حکومت کے مخالف گروپوں کا ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں خوزستان کے عرب قوم پرستوں ، مجاہدین خلق سمیت مالک ریکی نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں ایرانی ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی جس میں مالک ریکی کو بھی اہم کردار تفویض کیا گیا۔بعض اطلاعات کے مطابق جند اللہ کو اسٹرٹیجک سہولت فراہم کرنے کے لیے سی آئی اے نے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی معاونت حاصل کی۔ گوکہ ان اطلاعات کو مکمل طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم حالیہ پشین خود کش دھماکہ کے بعد جس طرح ایران نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا اس سے ان اطلاعات پر لگے شہبات کے دھبے نسبتاً کم گہرے ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے پشین دھماکہ کے بعد جند اللہ نے فوراً نہ صرف اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ ”شہید “ مجاہد کی تصاویر بھی انٹرنیٹ پر مشتہر کی مگر جب ایران نے پاکستان پر دباﺅ بڑھانا شروع کیا تو جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی نے 90ڈگری کا یوٹرن لے کر اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔مزید یہ کہ امریکی حمایت یافتہ پاکستانی نجی چینل جس نے مالک ریکی کا انٹرویو نشر کیا تھا اس واقعہ کے بعد اس نجی چینل نے اس وضاحت کے ساتھ مالک ریکی کا ایڈٹ کردہ انٹرویو دوبارہ نشر کیا کہ ”ہم بھی پاکستانی ہیں اور ہمیں پاکستانی مفادات کا احساس ہے “۔ اس انٹرویو میں وہ تمام جملے حذف کئے گئے جس میںمالک ریکی پاکستان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔جند اللہ کو پاکستانی خفیہ اداروں کی کی مدد وحمایت حاصل ہے یا نہیں؟ اس سوال کا ہاں یا نہیں میں حتمی جواب دینا تو ممکن نہیں تاہم جب ڈاکٹر خالد، دلجان، اکبر خان بگٹی، اور واحد کمبر شہید وگرفتار ہوں مگر مالک ریکی اور ان کے ”مجاہدین“ کا انہی پہاڑوں میں بال تک بیکا نہ ہو تو ذہن میں سلیمانی ٹوپی کی بجائے کسی اور شے کا خیال آتا ہے۔ اگر بالغرض وہ افغانستان میں براجمان ہیں تو نیٹو اور امریکہ شک کے دائرے میں آجاتے ہےں اس کے ساتھ ساتھ افغانستان ، زاہدان، سراوان اور پشین کے درمیانی فاصلے اور پورا جغرافیہ زہن پر چھا جاتا ہے۔
جند اللہ کی حد درجہ پراسراریت بھی بجائے خود اس کے مشکوک ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ گوکہ مشرقی بلوچستان میں بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے بھی بظاہر خفیہ تنظیمیں ہیں مگر کراچی سے لے کر نوشکی تک ان کی موجودگی ثابت ہے جبکہ چابہار سے لے کر تاحد زابل جند اللہ کہیں بھی موجود نہیںمگر اس کے باوجود جند اللہ مشرقی بلوچستان کی عسکری تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور طاقتور نظر آتی ہے۔
مختصراً ، جند اللہ شکوک وشبہات میں ملفوف ایک ایسا گروہ ہے جس کی سرگرمیوں سے بلوچ قومی سوال اور اس کے حقیقی حل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلوچ قومی تحریک سے وابستہ تمام افراد وادارے جند اللہ کے حوالے سے اگر محتاط رویہ اختیار کرکے مغربی بلوچستان کے حوالے سے اپنا مطالعہ مکمل کرکے ایک واضح حکمت عملی اور ٹھوس پروگرام مرتب کریں تویہ جند اللہ کی کورانہ حمایت سے بدر جہابہتر ہوگا۔ جند اللہ کی بے جا حمایت سے برآمد ہونے والے نتائج نہ صرف مغربی بلوچستان بلکہ مشرقی بلوچستان پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں جو یقینا کسی بھی طرح بلوچ قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔
تاریخ انسانی شاہد ہے ایسے معاشروں کو ہمیشہ ”سامراجی “ بلیوں کی ہوس کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ قبل از نشاة الثانیہ کی ”مسیحی“ دنیا ہو یا آج کی” اسلامی“ دنیا ، قدیم بابل ونینواہوں یا دور جدید کے زاہدان وکابل ہر جگہ استعماریت کو پروہتوں، پادریوں اور ملاﺅں کی معاونت حاصل رہی ہے۔ یہ معاونت ہمیشہ خدا اور پیغمبروں کے مقدس سمجھے جانے والے ناموں کے پردے میں ہوتی رہی ہے۔
چونکہ استعماریت کو سب سے بڑا خطرہ علمی وسائنسی نظریات کے پھل دار درختوں سے ہے اس لیے استعمار نے مذہبی بنیاد پرستی کے کانٹے دار جھاڑیوں کو دشمن قرار دے کر ان کے خلاف فرضی لڑائیاں لڑیں مگر درپردہ ان کو موجودگی کا جواز فراہم کیا تاکہ انسانوں کے استحصال کو سہل اور ممکن بنایا جاسکے۔
تاریخ کے صفحات ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ کس طرح قومی آزادی، سوشلزم ، آزادی نسواں اور نسل پرست مخالف تحریکوں کے خلاف مذہبی بنیاد پرستی کے ہتھیار کو استعمال کیاگیا۔ آج بھی یہ سامراج پسند مظاہر ہر جگہ اور ہر وقت دیکھے جاسکتے ہیں۔
علم دوست قارئین بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان میں جماعت اسلامی نے کس عیاری سے ” اہل کتاب بھائی“ امریکہ کی خواہش پر مارکسزم کی اعلیٰ تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ”مذہب انسانوں کے لیے افیون ہے “ جیسے ایک جملے کو بنیاد بنا کر مارکسزم کی غلط تشریح کی۔بھوک، افلاس اور معاشی نابرابری کے خلاف جدوجہد کا درس دینے والے مارکسی نظریات کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل کرکے عوام کے مذہبی جذبات کو مشتعل کیا گیا اور اس اشتعال کو پھر انہی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ یہ کھیل دنیا بھر میں مختلف شکل وصورت کے ساتھ بار بار دہرایا گیا۔ آج بھی زاہدان، چابہار، بمپور اور سراوان کے بلوچ شہروں، ریگزاروں ، نخلستانوں اور پہاڑوں میں یہ پُرفریب ڈرامہ دکھایا جارہا ہے۔
بلوچ تحریک آزادی جوکہ براہِ راست استعماریت سے متضاد ہے اس سے بلوچوں(مغربی بلوچستان کے ) کو دور رکھنے کے لیے ”جند اللہ “کا بت تراشا گیا۔ پاسدارانِ انقلاب ایران پر بے معنی حملے کرواکے اس بت کو مقدس روپ میں ڈھالا گیا بالکل سامری جادوگر کے ”بچھڑے“ کی طرح۔ عوامی مقبولیت اور تقدس حاصل کرنے کے بعد سامراجی مددو حمایت سے جند اللہ نے بلوچ گجر، بلوچ پنجابی اور کالونی اور کالونائزر کے درمیان موجود حقیقی تضاد کو چھپا کر شیعہ سنی کے غیر منطقی تضاد کی حمایت میں کامیاب پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا۔
گوکہ بعض بر خود غلط بلوچوں کا موقف ہے کہ جند اللہ بلوچ قومی حقوق کے حصول کی جدوجہد کررہی ہے خود جند اللہ نے بھی بعض مواقع پر انہی خیالات کا اظہار کیا مگر بلوچ قومی حقوق کا شیعہ مذہب سے کیا تعلق؟۔ زاہدان میں مسجد امیر المومنین کو خود کش دھماکہ کا نشانہ بنانا چہ معنی دارد ؟ ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس خود کش حملے کے بعد زاہدان میں بلوچ اور گجر شیعوں نے مشترکہ ریلی نکالی اور اس ریلی میں سنیوں، سعودی عرب اور پاکستان کے خلاف نعرے بازی کی گئی، حتیٰ کہ بلوچ امام جمعہ زاہدان مولانا عبدالحمید کو منافق کے الفاظ سے پکارا گیا۔ اس ریلی کے بعد سنی بلوچوں کے جذبات بھڑک اٹھے جس سے مولانا عبدالحمید بلوچ کی گرتی ہوئی ساکھ کو سنبھالا ملا۔ اس تمام تر صورتحال میں کس کو فائدہ اور کس کا نقصان ہوا؟
سیکولر بلوچ قوم پرستی جو کہ رنگ ، نسل، زبان، قبائلیت اور فرقہ واریت سے ماورا بلوچ قومی تشکیل کا تقاضہ کرتی ہے جند اللہ کی کارروائیوں سے اسے سخت ضعف پہنچا ہے۔ دوسری جانب شیعہ ازم کی بنیادوں پر استوار ایرانی نوآبادیاتی ریاست کو اپنی موجودگی کا مضبوط جواز فراہم ہوا۔ نہ صرف یہ بلکہ ان تنگ نظر بلوچ علمائے دین کو بھی پروانہ بحالی جاری ہوا جنہوںنے بعد از انقلاب خمینی بلوچ نوجوانوں کے قتال میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں یہ نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر مشرقی بلوچستان میں پنجابی آباد کا ر کا قتل جائز ہے تو مغربی بلوچستان میں گجر کا قتل کیوں ناجائز ہے؟ نکتہ تو قابل غور ہے مگر اس کو وسیع تناظر میں پرکھا جانا چاہیے۔ مشرقی بلوچستان میں پنجابی آباد کار بلاتخصیص نشانہ نہیں بنائے جارہے بلکہ بلوچ مسلح تنظیموں اور بلوچ حریت پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کے بقول سرمچار صرف ان پنجابی آباد کاروں کو نشانہ بناتے ہیں جو سرکار سے مل کر بلوچ قومی مفاد کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ٹھہرتے ہیں اور ان کارروائیوں میں نہ صرف پنجابی آباد کار بلکہ بلوچ بھی ٹارگٹ کلنگ کی زد میں آتے ہیں۔ روزنامہ توار کے 22دسمبر 2009ءکے ادراتی صفحات پر کالم نگار رامین بلوچ نے اپنے کالم”بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ، اثرات، اسباب، حل“میںاس حوالے سے بعض سائنسی وعلمی نکات اٹھائے ہیں۔ان کے مطابق ”بلوچ سرمچار یہ حقیقت بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے خلاف قابض ریاست کے پاس ایک ہی موثر ہتھیار ”جاسوسی کا نظام ونیٹ ورک “ ہے۔ اس لیے بلوچ سرمچار بڑی جان فشانی سے خفیہ اداروں کے نیٹ ورک کا پتہ لگا کر انہیں ہدف بناتے ہیں جس سے قابض ریاست اور اس کے حلقہ بگوش قوتوں کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ “ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے باعث جاسوسی نیٹ ورک اور پاکستان کی سرکاری مشینری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ ایک اخباری اطلاع کے مطابق اسلام آباد حکومت بلوچستان میں پنجابی افسران کی تعیناتی کا فیصلہ واپس لینے پر سنجیدگی سے غور کررہی ہے۔(3جنوری 2010روزنامہ توار)گویا مشرقی بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ گوکہ پاکستانی میڈیا اور سیاستدان تواتر کے ساتھ پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ بلوچستان میں نسلی بنیادوں پر پنجابی کو نشانہ بنایا جارہا ہے مگر سردست یہ پروپیگنڈہ کامیابی سے کوسوں دور ہے۔ دوسری جانب مغربی بلوچستان میں معاملہ یکسر مختلف ہے ۔ بم کرمان شاہراہ یا نوبندیان ، چابہار شاہراہ کی خونی واردات ہو یا واقعہ تاسو کی یا زاہدان کی جامع مسجد امیر المومنین کے اہل تشیع نمازیوں کو خود کش دھماکے کے ذریعے اڑانے کی غیر سائنسی کارروائی ہو۔جند اللہ کے ”سنی مجاہدین“ نے ہر جگہ مذہبی بنیاد پر گجر کو نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں کی وجہ سے سنی پسندی کا رجحان پیدا ہوا نتیجتاً گجر بلوچ تضاد کی جڑوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اوربلوچ قومی ارتقاءکی رفتار نہایت ہی سست ہوگئی۔ مغربی بلوچستان کے عوام نے اپنے رشتے بجائے مشرقی بلوچستان کی بلوچ تحریک کے سعودی عرب کے سامراج پسند وہابی حکمرانوں اور افغانستان کے خرد دشمن طالبان سے استوار کرنا شروع کردیے۔ مغربی بلوچستان میں ایرانی نوآبادیاتی نظام کے خلاف جو اکا دکا آوازیں تھیں ان کو بھی جند اللہ کی لایعنی کارروائیوں اورخود کش دھماکوں نے خاموش کردیا۔
اس تمام تناظر میں بظاہر بلوچ آئمہ کرام ، غیر جانبدار اور ایرانی آیت اللہ حکمران جند اللہ کے حریف بن کر سامنے آئے۔ مگر بغور تجزیہ کیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس ٹرائیکا نے بلوچ نیشنل ازم کے خلاف خاموشی اتحاد کرکے موجودہ صورتحال کو جوں کا توں رکھنے کی کوشش کی۔ بلوچ آئمہ کرام نے اپنے خطبات جمعہ میں اسلام کی سربلندی کی آڑ لے کر جند اللہ کی کارروائی کو حق بجانب اور مالک ریکی کی حمایت میں غیر محسوس طور پر رائے عامہ ہموار کیا جبکہ ایرانی حکومت نے زابل مدرسہ کی مسماری، علمائے کرام کی گرفتاری اورپہرہ(ایرانشہر)میں مدرسے کے طالبعلموں کے ہاتھ پیر کاٹ کر عوام کو باور کروا یا کہ مالک ریکی کے نظریات کلی طور پر درست ہیں۔ اس ٹرائیکا کے غیر اعلانیہ اتحاد کے باعث بلوچ معاشرے کے بانجھ پن میں مزید اضافہ ہوا۔
بلوچ معاشرے میں جند اللہ کی قدر وقیمت میں اضافہ کا ایک اور سبب اس کا پراسرا ر ہونا اور طاقت ورنظر آنا ہے۔ زاہدان سمیت بلوچستان بھر میں یہ خیال عام ہے کہ مالک ریکی ماورائی قوتوں کا حامل ہے وہ ایرانی خفیہ ادارے کے ہوشیار اہلکار کو دھوکہ دے کر کبھی بھی اور کہیں بھی دھماکہ کرسکتا ہے، مسلح فوجی اہلکاروں کو اغواءکرسکتا ہے۔ اور مرکزی شاہراﺅں کو گھنٹوں بلاک کرکے ریاستی رٹ کو چیلنج کرسکتا ہے۔ بلاشبہ مالک ریکی نے یہ سب کچھ کر دکھایا ہے مگر اس کے پس پشت ماورائی طاقتوں کے برخلاف ان قوتوں کے نشانات ملتے ہیں جنہوںنے قبل ازیں اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے اخوان المسلمین ، صدام حسین، خمینی، طالبان اور دیگر عفریت تخلیق کئے اور بعد ازاں ان کے خلاف فرضی جنگ کا آغاز کردیا۔
ایک امریکی اخبار کے مطابق ایران کو اندرونی پر غیر مستحکم کرنے کے لیے سی آئی اے کے زیرِ اہتمام ایرانی حکومت کے مخالف گروپوں کا ایک خفیہ اجلاس ہوا جس میں خوزستان کے عرب قوم پرستوں ، مجاہدین خلق سمیت مالک ریکی نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں ایرانی ریاست کو غیر مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی جس میں مالک ریکی کو بھی اہم کردار تفویض کیا گیا۔بعض اطلاعات کے مطابق جند اللہ کو اسٹرٹیجک سہولت فراہم کرنے کے لیے سی آئی اے نے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی معاونت حاصل کی۔ گوکہ ان اطلاعات کو مکمل طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم حالیہ پشین خود کش دھماکہ کے بعد جس طرح ایران نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرایا اس سے ان اطلاعات پر لگے شہبات کے دھبے نسبتاً کم گہرے ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے پشین دھماکہ کے بعد جند اللہ نے فوراً نہ صرف اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی بلکہ ”شہید “ مجاہد کی تصاویر بھی انٹرنیٹ پر مشتہر کی مگر جب ایران نے پاکستان پر دباﺅ بڑھانا شروع کیا تو جند اللہ کے سربراہ مالک ریکی نے 90ڈگری کا یوٹرن لے کر اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔مزید یہ کہ امریکی حمایت یافتہ پاکستانی نجی چینل جس نے مالک ریکی کا انٹرویو نشر کیا تھا اس واقعہ کے بعد اس نجی چینل نے اس وضاحت کے ساتھ مالک ریکی کا ایڈٹ کردہ انٹرویو دوبارہ نشر کیا کہ ”ہم بھی پاکستانی ہیں اور ہمیں پاکستانی مفادات کا احساس ہے “۔ اس انٹرویو میں وہ تمام جملے حذف کئے گئے جس میںمالک ریکی پاکستان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔جند اللہ کو پاکستانی خفیہ اداروں کی کی مدد وحمایت حاصل ہے یا نہیں؟ اس سوال کا ہاں یا نہیں میں حتمی جواب دینا تو ممکن نہیں تاہم جب ڈاکٹر خالد، دلجان، اکبر خان بگٹی، اور واحد کمبر شہید وگرفتار ہوں مگر مالک ریکی اور ان کے ”مجاہدین“ کا انہی پہاڑوں میں بال تک بیکا نہ ہو تو ذہن میں سلیمانی ٹوپی کی بجائے کسی اور شے کا خیال آتا ہے۔ اگر بالغرض وہ افغانستان میں براجمان ہیں تو نیٹو اور امریکہ شک کے دائرے میں آجاتے ہےں اس کے ساتھ ساتھ افغانستان ، زاہدان، سراوان اور پشین کے درمیانی فاصلے اور پورا جغرافیہ زہن پر چھا جاتا ہے۔
جند اللہ کی حد درجہ پراسراریت بھی بجائے خود اس کے مشکوک ہونے کی بڑی دلیل ہے۔ گوکہ مشرقی بلوچستان میں بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے بھی بظاہر خفیہ تنظیمیں ہیں مگر کراچی سے لے کر نوشکی تک ان کی موجودگی ثابت ہے جبکہ چابہار سے لے کر تاحد زابل جند اللہ کہیں بھی موجود نہیںمگر اس کے باوجود جند اللہ مشرقی بلوچستان کی عسکری تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور طاقتور نظر آتی ہے۔
مختصراً ، جند اللہ شکوک وشبہات میں ملفوف ایک ایسا گروہ ہے جس کی سرگرمیوں سے بلوچ قومی سوال اور اس کے حقیقی حل کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلوچ قومی تحریک سے وابستہ تمام افراد وادارے جند اللہ کے حوالے سے اگر محتاط رویہ اختیار کرکے مغربی بلوچستان کے حوالے سے اپنا مطالعہ مکمل کرکے ایک واضح حکمت عملی اور ٹھوس پروگرام مرتب کریں تویہ جند اللہ کی کورانہ حمایت سے بدر جہابہتر ہوگا۔ جند اللہ کی بے جا حمایت سے برآمد ہونے والے نتائج نہ صرف مغربی بلوچستان بلکہ مشرقی بلوچستان پر بھی منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں جو یقینا کسی بھی طرح بلوچ قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔
کراچی:مفاداتی جنگ میں بلوچ ایندھن کا استعمال
مائی کلاچی ایک بار پھر اپنے فرزندوں کو خاک خون میں لتھڑے دیکھ رہی ہے۔ دوسروں کے مفادات کی جنگ میں بلوچ ایندھن کا استعمال بڑی بے دردی سے جاری ہے۔ یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا، اس خونی اور بھیانک کھیل کا منطقی انجام کیاہوگا؟ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ کہنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ حالات واقعات پر نظر رکھنے والے مدت سے اس خوفناک صورتحال کی پیشن گوئی کررہے تھے۔
اس کھیل کی ابتداءاس وقت ہوئی جب کراچی کی سب سے بڑی جماعت نے لیاری پر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی پہلی کوشش کے طور پر لیاری کے مختلف علاقوں میں اپنے دفاتر قائم کئے اور ان دفاتر کے ذریعے بلوچ عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اسی دوران جب معروف بلوچ دانشور یار محمدیار اور معروف بلوچ ادیب عباس علی زیمی جیسے مایوس اور شکست خوردہ شخصیات نے اس جماعت سے وابستگی اختیار کی تو چہار جانب خطرات میں گھرے بلوچ نوجوانوں نے بھی اسے نجات دہندہ تصور کرلیا۔ متعدد بلوچ نوجوان اس جماعت سے وابستگی پر فخر محسوس کرنے لگے۔
پاکستان کی سب سے بڑی وفاق پرست جماعت جس کی عرصہ دراز سے لیاری اور دیگربلوچ علاقوں پر حکمرانی تھی کو اس صورتحال سے شدید بے چینی لاحق ہوئی۔ اس اثناءمین کراچی کی جماعت نے لیاری کے علاقے ککری گراﺅنڈ میںایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا جس میں معروف بلوچ گلوکار عارف بلوچ نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔گوکہ وفاق پرست سیاسی پارٹی نے اس جلسہ عام کو ناکام بنانے کی ہر ممککن کوشش کی مگر وہ ناکام رہی۔ 26اگست 2007ءکو وفاق پرستوں کو غیبی امداد ملی۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد جب بلوچ سراپا احتجاج تھے تو وفاق پرستوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نواب بگٹی کی شہادت کا ذمہ دار لسانی جماعت کو ٹھہرا کر لیاری میں ان کے تمام دفاتر بند کروائے گئے، بلوچ نفرت کو خوب خوب استعمال کیا گیا۔ اس سانحے نے لسانی جماعت کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔
یہاں سے ناکامی کے بعد لسانی جماعت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوںنے لیاری میں 2متحارب بلوچ گروپوں میں سے ایک کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ وفاقی جماعت نے دوسرے گروپ کی سرپرستی شروع کردی۔ اس لڑائی میں سینکڑوں بلوچ قتل وزخمی ہوئے۔ ہزاروں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس پورے عرصے میں نہ صرف لیاری کی زندگی مفلوج ہوئی بلکہ اس کا مزاج بھی بدل گیا۔ سیاسی وسماجی شکست وریخت نے اسے نڈھال کردیا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں صرف 2افراد روشنی کے حصول کے لیے لڑتے رہے۔ ایک شہید غلام محمد بلوچ ایک دوسرا زاہد حسین بلوچ تاہم بعد ازاں گرد آلود گرم ہواﺅں کے تھپیڑے سے زاہد حسین بھی خود کو نہ بچاسکے البتہ شہید غلام محمد بلوچ آخری دم تک ثابت قدم رہے۔
انتخابات کے دوران بے نظیر بھٹو کے قتل نے وفاق پرستوں کی گرتی ہوئی ساکھ کو مزید سنبھالا دیا۔ الیکشن جیتنے اور حکومت بنانے کے چند ماہ بعد بلوچ گروپوں کے درمیان تصفیہ کروایا گیا اور لیاری میں ایک ایسی امن قائم کردی گئی جس کی تہیہ میں سونامی پوشیدہ تھا۔
اس تمام عمل کے نتیجے میں رحمان بلوچ کی شخصیت ابھری۔ رحمان بلوچ نے پیپلزامن کمیٹی تشکیل دے کر سماجی کاموں کا آغاز کردیا۔ رفتہ رفتہ وفاق پرست رہنماﺅں کے مقابلے میں رحمان بلوچ کی حیثیت زیادہ معتبر بن گئی۔رحمان بلوچ نے نہ صرف وفاق پرستوں بلکہ کراچی کی لسانی جماعت کو بھی چیلنج کردیا۔ انہوںنے امن کمیٹی کو لیاری کی حدود سے نکال کر کراچی کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کی منظم کوششیں شروع کردیں۔ کھارادر، میٹھادر، صرافہ بازار، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ حتیٰ کہ صدر بھی امن کمیٹی کی مفتوحات میں شامل ہوگئی۔ وفاقی جماعت اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار لسانی جماعت کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
کراچی کی لسانی جماعت جس کی اجارہ داری کو پہلے ہی پختون چیلنج کا سامنا تھا اس اچانک افتاد سے وہ مزید دباﺅ میں آگئی۔ تیسری جانب اسے گٹر باغیچہ پر قبضے کے معاملے میں بھی مزاحمت کا سامنا تھا۔ جہاں ایک باثر گروپ کی سرپرستی میں نثار بلوچ ڈٹا ہوا تھا۔ ان تمام عوامل نے مل کر لسانی جماعت کی بالادست پوزیشن کو شدید خطرے سے دوچار کردیا ۔
اگست 2009ءمیں رحمان بلوچ پولیس کے ہاتھوں پر اسرا ر طور پر قتل ہوگئے۔ چند ماہ بعد نثار بلوچ بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔ لسانی جماعت نے اپنی بالادستی کی کوششیں دوبارہ شروع کردیں۔ وفاقی جماعت کو صورتحال کا اندازہ تھا اس لیے انہوںنے رحما ن بلوچ کی قائم کردہ امن کمیٹی کو مزید توانائی فراہم کی۔
صورتحال گھمبیر ہوچکی تھی۔ دومتضاد مفادات کی حامل جماعتوں کا خوفناک تصادم ناگزیر تھا۔ دونوں اپنے غیر انسانی مفادات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ دسمبر 2009ءکو عاشورہ محرم کے جلوس میں ایک پراسرا دھماکہ ہوا اور وفاق پرست جماعت کی راج دھانی بولٹن مارکیٹ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ گویا طبل جنگ بج گئی۔شروع شروع میں اکا دکا قتل کے واقعات پیش آئے۔پھر بالآخر 8جنوری کو خوفناک جنگ کا آغاز ہوگیا۔
بلوچ، مرتا رہا، سسکتا رہا۔ 9جنوری کو پھر بلوچ خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اس جنگ کا اختتام کب ہوگا؟ پتہ نہیں۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچ کو دوسروں کے مفادات کا ایندھن بننے سے خود کو روک کر اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا جو متاثر ہوتے جارہے ہیں۔
وفاقی جماعت کے تعلقات چونکہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے حددرجہ خراب ہوچکے ہیں اور لسانی جماعت کو ہمہ وقت مقتدرہ کی حمایت حاصل رہی ہے اس لیے موجودہ صورتحال لسانی جماعت کے لیے حدر درجہ خوش کن ہے۔ اقتدار اور اثرو رسوخ کی اس جنگ میں لازماً بلوچ کا ہی خون بہے گا کیونکہ وفاق پرست جماعت کو زندہ رہنے کے لیے بلوچ زندگی کی ضرورت ہے جبکہ بلوچ قومی تحریک کو کراچی میں منظم ہونے سے روکنے کےلیے بھی یہ جنگ ناگزیر ہے۔
موجودہ حالات میں نہ صرف کراچی بلکہ بلوچستان کے قوم پرست قوتوں بالخصوص بی این ایف کو متحرک ہونا ہوگا۔ کراچی میں آباد بلوچوں کی نمائندگی جو اس وقت وفاق پرستوں کے پاس ہے بی این ایف کو وسیع عوامی رابطہ مہم کے ذریعے خود لے لینی چاہیے۔ بصورت دیگر بلوچ کراچی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔
اس کھیل کی ابتداءاس وقت ہوئی جب کراچی کی سب سے بڑی جماعت نے لیاری پر اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی پہلی کوشش کے طور پر لیاری کے مختلف علاقوں میں اپنے دفاتر قائم کئے اور ان دفاتر کے ذریعے بلوچ عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اسی دوران جب معروف بلوچ دانشور یار محمدیار اور معروف بلوچ ادیب عباس علی زیمی جیسے مایوس اور شکست خوردہ شخصیات نے اس جماعت سے وابستگی اختیار کی تو چہار جانب خطرات میں گھرے بلوچ نوجوانوں نے بھی اسے نجات دہندہ تصور کرلیا۔ متعدد بلوچ نوجوان اس جماعت سے وابستگی پر فخر محسوس کرنے لگے۔
پاکستان کی سب سے بڑی وفاق پرست جماعت جس کی عرصہ دراز سے لیاری اور دیگربلوچ علاقوں پر حکمرانی تھی کو اس صورتحال سے شدید بے چینی لاحق ہوئی۔ اس اثناءمین کراچی کی جماعت نے لیاری کے علاقے ککری گراﺅنڈ میںایک بہت بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا جس میں معروف بلوچ گلوکار عارف بلوچ نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔گوکہ وفاق پرست سیاسی پارٹی نے اس جلسہ عام کو ناکام بنانے کی ہر ممککن کوشش کی مگر وہ ناکام رہی۔ 26اگست 2007ءکو وفاق پرستوں کو غیبی امداد ملی۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد جب بلوچ سراپا احتجاج تھے تو وفاق پرستوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ نواب بگٹی کی شہادت کا ذمہ دار لسانی جماعت کو ٹھہرا کر لیاری میں ان کے تمام دفاتر بند کروائے گئے، بلوچ نفرت کو خوب خوب استعمال کیا گیا۔ اس سانحے نے لسانی جماعت کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملادیا۔
یہاں سے ناکامی کے بعد لسانی جماعت نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوںنے لیاری میں 2متحارب بلوچ گروپوں میں سے ایک کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ وفاقی جماعت نے دوسرے گروپ کی سرپرستی شروع کردی۔ اس لڑائی میں سینکڑوں بلوچ قتل وزخمی ہوئے۔ ہزاروں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اس پورے عرصے میں نہ صرف لیاری کی زندگی مفلوج ہوئی بلکہ اس کا مزاج بھی بدل گیا۔ سیاسی وسماجی شکست وریخت نے اسے نڈھال کردیا۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں صرف 2افراد روشنی کے حصول کے لیے لڑتے رہے۔ ایک شہید غلام محمد بلوچ ایک دوسرا زاہد حسین بلوچ تاہم بعد ازاں گرد آلود گرم ہواﺅں کے تھپیڑے سے زاہد حسین بھی خود کو نہ بچاسکے البتہ شہید غلام محمد بلوچ آخری دم تک ثابت قدم رہے۔
انتخابات کے دوران بے نظیر بھٹو کے قتل نے وفاق پرستوں کی گرتی ہوئی ساکھ کو مزید سنبھالا دیا۔ الیکشن جیتنے اور حکومت بنانے کے چند ماہ بعد بلوچ گروپوں کے درمیان تصفیہ کروایا گیا اور لیاری میں ایک ایسی امن قائم کردی گئی جس کی تہیہ میں سونامی پوشیدہ تھا۔
اس تمام عمل کے نتیجے میں رحمان بلوچ کی شخصیت ابھری۔ رحمان بلوچ نے پیپلزامن کمیٹی تشکیل دے کر سماجی کاموں کا آغاز کردیا۔ رفتہ رفتہ وفاق پرست رہنماﺅں کے مقابلے میں رحمان بلوچ کی حیثیت زیادہ معتبر بن گئی۔رحمان بلوچ نے نہ صرف وفاق پرستوں بلکہ کراچی کی لسانی جماعت کو بھی چیلنج کردیا۔ انہوںنے امن کمیٹی کو لیاری کی حدود سے نکال کر کراچی کے دیگر علاقوں تک پھیلانے کی منظم کوششیں شروع کردیں۔ کھارادر، میٹھادر، صرافہ بازار، جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ حتیٰ کہ صدر بھی امن کمیٹی کی مفتوحات میں شامل ہوگئی۔ وفاقی جماعت اپنی سیاسی تاریخ میں پہلی بار لسانی جماعت کو پچھاڑنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
کراچی کی لسانی جماعت جس کی اجارہ داری کو پہلے ہی پختون چیلنج کا سامنا تھا اس اچانک افتاد سے وہ مزید دباﺅ میں آگئی۔ تیسری جانب اسے گٹر باغیچہ پر قبضے کے معاملے میں بھی مزاحمت کا سامنا تھا۔ جہاں ایک باثر گروپ کی سرپرستی میں نثار بلوچ ڈٹا ہوا تھا۔ ان تمام عوامل نے مل کر لسانی جماعت کی بالادست پوزیشن کو شدید خطرے سے دوچار کردیا ۔
اگست 2009ءمیں رحمان بلوچ پولیس کے ہاتھوں پر اسرا ر طور پر قتل ہوگئے۔ چند ماہ بعد نثار بلوچ بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔ لسانی جماعت نے اپنی بالادستی کی کوششیں دوبارہ شروع کردیں۔ وفاقی جماعت کو صورتحال کا اندازہ تھا اس لیے انہوںنے رحما ن بلوچ کی قائم کردہ امن کمیٹی کو مزید توانائی فراہم کی۔
صورتحال گھمبیر ہوچکی تھی۔ دومتضاد مفادات کی حامل جماعتوں کا خوفناک تصادم ناگزیر تھا۔ دونوں اپنے غیر انسانی مفادات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ تھے۔ دسمبر 2009ءکو عاشورہ محرم کے جلوس میں ایک پراسرا دھماکہ ہوا اور وفاق پرست جماعت کی راج دھانی بولٹن مارکیٹ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ گویا طبل جنگ بج گئی۔شروع شروع میں اکا دکا قتل کے واقعات پیش آئے۔پھر بالآخر 8جنوری کو خوفناک جنگ کا آغاز ہوگیا۔
بلوچ، مرتا رہا، سسکتا رہا۔ 9جنوری کو پھر بلوچ خون سے ہولی کھیلی گئی۔ اس جنگ کا اختتام کب ہوگا؟ پتہ نہیں۔مگر۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچ کو دوسروں کے مفادات کا ایندھن بننے سے خود کو روک کر اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا جو متاثر ہوتے جارہے ہیں۔
وفاقی جماعت کے تعلقات چونکہ طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے حددرجہ خراب ہوچکے ہیں اور لسانی جماعت کو ہمہ وقت مقتدرہ کی حمایت حاصل رہی ہے اس لیے موجودہ صورتحال لسانی جماعت کے لیے حدر درجہ خوش کن ہے۔ اقتدار اور اثرو رسوخ کی اس جنگ میں لازماً بلوچ کا ہی خون بہے گا کیونکہ وفاق پرست جماعت کو زندہ رہنے کے لیے بلوچ زندگی کی ضرورت ہے جبکہ بلوچ قومی تحریک کو کراچی میں منظم ہونے سے روکنے کےلیے بھی یہ جنگ ناگزیر ہے۔
موجودہ حالات میں نہ صرف کراچی بلکہ بلوچستان کے قوم پرست قوتوں بالخصوص بی این ایف کو متحرک ہونا ہوگا۔ کراچی میں آباد بلوچوں کی نمائندگی جو اس وقت وفاق پرستوں کے پاس ہے بی این ایف کو وسیع عوامی رابطہ مہم کے ذریعے خود لے لینی چاہیے۔ بصورت دیگر بلوچ کراچی سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)