STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Friday, June 25, 2010

ریکی کی تنہائی اور فرنٹ کی کج روی

مئی9 ,2010ء۔ایران کے زیرِ انتظام تمام کردشہروں کرمانشاہان، ایلام، سنندج، مہاباد، ارومیہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں مکمل ہڑتال ہے۔ چشم گریہ اور آتش زیر پا کرد طلباءسڑکوں پر چوراہوں پر ایرانی ریاست کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ڈریکولا صفت ایرانی حکمرانوں کو دعوت مبارزت دے رہے ہیں۔
یہی صورتحال عراق کے زیر انتظام کردستان میں بھی ہے۔ احتجاج میں یورپ نشین کرد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ روم ، برلن، فرینکفرٹ، لندن، پیرس، میڈرڈ الغرض جہاں بھی کوئی کرد تھا وہ سڑکوں پر نکلا۔
کرد مشتعل تھے فرزاد کمانگر کے لیے۔ 32سالہ فرزاد کمانگر، جو بیک وقت ایک شاعر، ٹیچر، سماجی کارکن اور صحافی ہے۔ ان کا آبائی شہر کامیاران، جس کی تعریف میں انہوںنے متعدد قصیدے لکھے، وہ شہر آج ایک دہکتے تنور کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ کیونکہ فرزاد کمانگر آج جسمانی طور پر نہیں رہا۔ انہیں ان کے 5دوستوں سمیت ایرانی جلاد صفت حکمرانوں نے پژاک (PEJAK)سے وابستگی کے الزام میں تختہ دار پر لٹکادیا ہے۔
فرزاد کی وابستگی پژاک سے تھی یا نہیں یہ تو نا معلوم ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ سرتاپاایک ”کرد“ تھا ، کردوطن کا سچا عاشق۔ وہ بہادر تھا تبھی تو جب کرد رہنما احساس فتحیان کو ایرانی عدالت نے پھانسی کا حکم سنایا تو اس مرد حرد نے عبداللہ اوجلان اور چے گویرا کی تصویروں کے ساتھ اس سزا کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔ ” یہ ہمیں ایرانی بنانا چاہتے ہیں مگر ہم ہزاروں سال سے کرد ہیں اور ابد تک رہیں گے ،یہ ہماری قومی شناخت ہے، اس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے، ہم مادیگ کے وارث ہیں جنہوںنے ایرانی سلطنت ساسانیہ کے بادشاہ اردشیر کو شکست دے کر کردستان کا دفاع کیا، کردستان ایک بے جا ن زمین کا نام نہیں وہ لہو بن کر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے“۔ بھوک ہڑتال کے بعد فرزاد کمانگر نے ان جملوں کو اپنے بلاگ میں لکھا۔
9مئی 2010ئ۔ فزاد کمانگر اپنی سرزمین پر قربان ہوگیا۔ شہید غلام محمد بلوچ، شہید اکبر ، شہید بالاچ، شہید خالد، شہید قدیر اور دیگر بلوچ شہداءکی طرح۔ کردوں نے اس فرزند وطن کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا۔
فرزاد کمانگر کی شہادت کو 40دن گزرگئے۔
20جون 2010ئ۔ ایران کے زیر انتظام تمام بلوچ شہروں زاہدان ، پہرہ (ایرانشہر) ، سراوان، گہہ (نیکشہر)، چابہار، خاش اور کنرک میں زندگی معمولی کی طرح رواں دواں ہے۔ بلوچ طلباءحصول علم ایرانی میں مشغول ہیں۔ بازاروں کی رونقیں بھی قائم ہیں۔ البتہ بعض مقامات پر چند بلوچ آپس میں آج کے واقعے پر سرگوشی کررہے ہیں، کسی نے تاسف کا اظہار کیا، کسی نے دعائے مغفرت کی، کسی نے پوچھا، اب کیا ہوگا؟سوال گونجتا رہا، جواب ماتھے کی شکنوں سے آیا، پتہ نہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں صورتحال تھوڑی سی مختلف ہے۔ آزادی پسندوں کے اتحاد بی این ایف نے احتجاج اور سوگ کا اعلان کیا ہے۔ ناروے سے خبر آئی ہے وہاں بھی احتجاج کا اعلان ہوا ہے۔
مرزا غالب یاد آتے ہیں، آپ بھی یاد کریں۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے
بلوچ منقسم ہیں مالک ریکی کے لیے۔ عبدالمالک ریکی جو شدت پسند سنی تنظیم جند اللہ کا سربراہ تھا۔ ان کا آبائی شہر زاہدان جو اپنی مزاحمتی فطرت کے حوالے سے معروف ہے پرسکون ہے، ان کا کراچی میں واقع مدرسہ بنوری ٹاﺅن جس کے مقتول سربراہ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان کے استاد اور آئی ایس آئی کے رفیق جانے جاتے تھے مکمل خاموش ہے۔ حالانکہ عبدالمالک ریکی کو ایران تختہ دار پر لٹکا چکا ہے۔ سب خاموش ہیں صرف بی این ایف غرار رہی ہے۔ عبدالمالک ریکی کو ” دانشوران ملک وملت“ محترم انور ساجدی اور قابل احترام صورت خان مری( جن کے نشتر
پہلے شہید غلام محمد اور اب اتحاد مری، خلیل بلوچ اور بشیر زیب پر خوب چلتے ہیں) بلوچ مزاحمت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے چابہار کے ساحل سے لے کر تا زابل کے ریگزار ایک
پتہ بھی نہیں ہلتا۔
بعض خوش فہم بلوچوں کا موقف ہے کہ چونکہ مغربی بلوچستان پر جبر کے سیاہ بادل کافی گہرے ہیں اس لیے احتجاج کی روشنی کا کوئی امکان نہیں۔مغربی بلوچستان کے سیاسی مزاج سے واقف افراد بخوبی جانتے ہیں کہ اس خیال میں رتی بھر صداقت نہیں۔جب بھی بلوچ قومی احساسات مجروح ہوئے ہیں۔ مغربی بلوچستان آگ بگولہ ہوا ہے۔ آج بھی اگر مولانا عبدالحمید احتجاج کی کال دیں تو ایرانی رٹ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ مگر چونکہ عزت مآب مولانا سرکاری نمک خوار ہیں اس لیے اس کی نوبت شاید ہی کبھی آئے۔پھر کیا وجہ ہے کہ فرزاد کمانگر کے برعکس عبدالمالک ریکی اپنی موت کے بعد بھی تنہا ہیں؟ہوسکتا ہے انور ساجدی ، صورت خان مری اور بی این ایف کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس دلیل ہو مگر بعض چیزیں عبدالمالک ریکی کے سفر زیست سے واضح ہیں۔ جہاں فرزاد کمانگر قومی جذبات ، احساسات ، خواہشات ، رجحانات اور مفادات کے مطابق راہ عمل ترتیب دے رہے تھے وہا ں ریکی بنوری ٹاﺅن کے مدرسے میں پاکستانی خفیہ اداروں کے نوالہ تر بننے کے مرحلے سے گزررہے تھے۔ پھر مالک ریکی اپنے ”دوستوں “ کی ہدایت پر ایک ایسے راستے پر چل پڑے ۔ جو بلوچ قومی مفاد کے ساتھ براہِ راست متصاد م تھا۔ مالک ریکی نے بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر امریکی مفادات کے حصول کو اپنا مقصد بنالیا مگر حیرت ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو ہدف تنقید بنانے والے صورت خان مری نے ان کو قومی ہیرو بنا دیا حالانکہ مالک ریکی گرفتاری سے قبل بارہا کہہ چکے تھے کہ وہ ایرانی ریاست نہیں نظام کے خلاف ہیں اور گرفتاری کے بعد وہ برسرعام امریکہ وبرطانیہ سے اپنے تعلقات کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ہم اس دلیل کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ مالک ریکی کے اعترافات شدیدتشدد کا نتیجہ تھے کیونکہ اگر تشدد اعترافات کی کنجی ہے تو شہید غلام محمد، ڈاکٹر اللہ نذر، واحد کمبر اورلاپتہ بلوچ رہنما پاکستانی اذیت گاہوں میں ناقابل بیان تشدد کے باوجود پاکستانی خواہشات کے مطابق ”اعتراف جرم“ کیوں نہ کرسکے؟؟ یا کر د رہنما عبداللہ اوجلان سے ترکی اس قسم کا اعتراف کیوں نہ کراسکا؟؟ یہاں تک کہ فرزاد کمانگر اور بلوچ صحافی یعقوب مہر نہاد بھی ایرانی جبر کے ہاتھوں اس قدر مجبور نہ ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ مالک ریکی بلوچ معاشرے میں کل بھی تنہا تھا آج بھی تنہا ہے۔
میں محترم حفیظ حسن آبادی کی اس رائے سے بھی اتفاق نہیں رکھتا کہ ایران میں سنی ہونا جرم ہے اس لیے مالک ریکی اور جند اللہ کے نظریات، خیالات اور کارروائیا ں بلاجواز نہیں۔ میں آج بھی
اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ ایران میں کرد، بلوچ ، لر اور عرب ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔ شیعہ سنی تضاد گو کہ ایران میں موجود ہے البتہ اس کی شدت وحدت قومی تضاد سے کئی سو گنا کم ہے۔ مثال کے طور پر، چابہار میں واقع جامع مسجد ایران میں سنیوں کی سب سے بڑی مسجد ہے مگر پورے مغربی بلوچستان میں ایک بھی بلوچ ثقافتی ادارہ نہیں، مولانا عبدالحمید عرصہ دراز سے سنی کونسل کے نام سے ایک فعال تنظیم کے سربراہ ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی بلوچ سیاسی وثقافتی تنظیم تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کرے، سنی کتابیں تواتر کے ساتھ شائع ہورہی ہیں مگر بلوچی کتابوں پر پابندی ہے اور یہاں تک کہ ایک سنی مولانا ایرانی پارلیمنٹ کارکن بن سکتا ہے مگر سیکولر بلوچ قوم پرست بلدیاتی الیکشن بھی نہیں لڑسکتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران سنی شیعہ تضاد کا ڈرامہ رچھا کر بلوچ گجر تاریخی وحقیقی تضاد کو چھپانا چاہتی ہے اور افسوس مالک ریکی اس معاملے میںان کے فکری دوست ثابت ہوئے۔
دوسری جانب آزادی پسند بلوچ اتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ نے مالک ریکی کو آزادی پسند گوریلا کمانڈر قرار دے کر نہ صرف اپنے بلکہ مالک ریکی اور ان کے دوستوں پر بھی ظلم کیا ہے۔ مالک ریکی کے بیانات، تقاریر اور ان کی کارروائیاں ریکارڈ پر ہیں بی این ایف کے دوست طفلانہ ضد کے دائرے سے نکل کر ایک باران کاتجزیہ ضرور کریں جو چیخ چیخ کر مالک ریکی اور ان کی تنظیم کی حقیقت بتار ہے ہیں ۔ شاید خلیل بلوچ، عصا ظفر ، براہمدغ بگٹی، وہاب بلوچ، زاہد اور بشیر زیب کو یاد نہ ہو کہ مالک ریکی کی گرفتاری کے بعد جند اللہ کے نئے سربراہ ظاہر بلوچ نے اپنے پہلے جاری پالیسی بیان میں کیا کہا تھا۔اگر یاد نہیں تو ہم ان محترم رہنماﺅں کو یاد دلانے کی جسارت کرتے ہیں۔ ”ہماری جدوجہد ایرانی شاﺅنسٹ رجیم کے خلاف ہے، ہم ایرانی قوم کو ایک آسودہ زندگی دینا چاہتے ہیں۔ ہم کرد، لر، عرب، فارس، ترک، بلوچ اور ترکمن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔“
بی این ایف بتائے ایرانی رجیم کی تبدیلی سے بلوچ قومی آزادی کا کیا تعلق؟؟؟۔اگر جند اللہ بلوچ مزاحمت کی علامت ہے جس طرح صورت خان مری، انور ساجدی، بی این ایف، بلوچ کمیونٹی ناروے، سمندر آسکانی اور دیگر ہمیں بتارہے تو جند اللہ نے بی ا ین ایف، بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے سے تعاون کی اپیل کیوں نہ کی؟؟۔ جند اللہ بی این ایف کو سرے سے اپنا دوست تسلیم نہیں کرتی مگر اس کے باوجود ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ۔“

2 comments:

W Garboni said...

Some supporters of Jondollah call BLA a kafir organisation.

balach khan said...

I know some supporters of jandullah belong to ISI....
B.L.A and others BALOCH nationalists are vanguards but jandullah???? you know better then me My dear