STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Saturday, September 18, 2010

اپنے مرکز سے دور نکلتی نیشنل پارٹی

اردو زبان کے نامور ادیب جوش ملیح آبادی کو جب بھی کوئی واقعہ بیان کرنا ہوتا تو عموماً انکا انداز کچھ اس قسم کا ہوتا۔



”غصے سے تھر تھر کانپتے سورج نے اپنی تپش کے ذریعے کرہِ ارض کو جلا کر بھسم کرنے کا مکمل تہیہ کر رکھا تھا ، دو پہر پوری شدت کے ساتھ اپنی موجودگی کا احساس دلارہی تھی، دن بھر کے تھکے ہارے پرندے غول کی صورت اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے، سرمئی بادلو ں سے برستی ہلکی ہلکی پھوار جوان دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کرنے کا سبب بن کر دیدار رخ یار کی طلب میں اضافہ کررہی تھی، دور سے اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹی کی ٹن ٹن وقفے وقفے سے سرد فضاﺅں میں ارتعاش پیدا کرکے پھر معدوم ہوجاتی، شاید ساربان چاندنی کا غسل کررہے ہیں، بچے اسکول اور بڑے تلاش رزق کے لیے دوڑتے نظر آرہے ہیں، ہر طرف ہوکا عالم طاری ہے لگتا ہے کسی خاتون خانہ نے چراغ محفل سے عاجز آکر شہر میں وباءیا زلزلوں کی پیشن گوئی کردی ہے، درندوں کی دھاڑ سے پورا جنگل گونج رہا تھا۔“


درج بالا اقتباس گوکہ راقم کی اختراع ہے مگر جوش ملیح آبادی کی تحریروں میں اس قسم کی تضاد بیانی جابجا نظر آتی ہے۔ غالباً اسی لیے ان کی کتاب ”یادوں کی بارات “ کو تضادات کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں( 25اگست2010ء) روزنامہ ”توار“ کے ادراتی صفحات پر نوجوان سیاسی رہنما واحد رحیم بلوچ بھی جوش ملیح آبادی کی پیروی کرتے نظر آئے۔ ایسا لگتا ہے محترم واحد رحیم کو مجبور کیا گیا تھا کہ وہ لکھے، غالباً اسی لیے ان کا لکھا، لکھائی کم ”لالکھائی “زیادہ محسوس ہوا۔ بے ربط جملوںاور پر تضاد خیالات سے ہم نے بڑی مشکل سے جوبرآمد کیا، وہ تھا ”اندھا کنواں“۔


مثال کے طور پر وہ فرماتے ہیں کہ ”بلوچستان آج جس سیاسی، معاشرتی انتشار، کشمکش ، بے چینی، عدم اعتماد کی کیفیت میں مبتلا ہے شاید تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا “ اس کے بعد آگے وہ اپنی بات کی نفی کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ”موجودہ بحران تاریخ میں نظریات کے تصادم کا درجہ رکھتا ہے لہٰذا یہ مادہ پرستی اور خیال پرستی، حقیقت پسندی اور رومانیت کے بنیادی دھارے والی نظریاتی شاخیں ہیں اور ان سرچشموں سے جنم لینے والے نظریات کے دھارے آغاز تمدن سے انسانی سماج کو متاثر کرتے آرہے ہیں“۔مذکورہ دو جملوں سے قاری کیا سمجھے؟۔ بلوچستان میں جاری کشمکش تاریخی تسلسل ہے یا اچانک پیدا ہونے والا واقعہ؟ اسی طرح ایک جگہ موصوف بتاتے ہیں کہ مولا بخش دشتی کی موت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال طبقاتی ونظریاتی تفریق کا نتیجہ ہے پھر دوسری ہی سانس میں وہ رحمان ملک کی طرح اس کو عالمی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔


بہر کیف ، واحد رحیم کے پورے اظہار یے میں بے سرو پا جملوں کے درمیان جو واضح اشارہ ملتا ہے وہ ہے بلوچستان میںجاری کشمکش بالخصوص مولا بخش دشتی کا قتل،بی ایل ایف اور نیشنل پارٹی کے درمیان لفظی جنگ، نیشنل پارٹی کی جانب سے روزنامہ ”توار“ کو نشانہ بنانے کی مبینہ دھمکیاں، روزنامہ توار کو سازشی نوٹس جاری کرنا، میرا امام بزنجو اور ڈاکٹر مالک کے درمیان جبری دوستی کا رشتہ اور بلوچ لیجنڈ ڈاکٹر اللہ نذر کے خلاف منفی پروپیگنڈہ دراصل طبقاتی تضادات کا شاخسانہ ہے۔ بقول ان کے یہ مادیت (نیشنل پارٹی)، عینیت(مخالفین)، حقیقت پسندی(نیشنل پارٹی) ، رومانیت(مخالفین) اور جدیدیت( نیشنل پارٹی) اور قدامت پسندی(مخالفین) کے درمیان جنگ ہے۔


چونکہ مذکورہ خیالات ڈاکٹر مالک، ڈاکٹر یٰسین اور طاہر بزنجو کی جانب سے بھی پیش کئے جاچکے ہیں اس لیے یہ مجموعی طور پر نیشنل پارٹی کا سیاسی نکتہ نظر ہے جس کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے۔مادیت پسند حقیقی صورتحال کا درست اور بے لاگ تجزیہ کرکے جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق متضاد قوتوں کے مخاصمانہ مفادات کا پتہ چلا کر مستقبل کی پیش بینی کرتا ہے پھر انہی نتائج کی مزید چھان پھٹک کر کے عوامی ضروریات کو سامنے رکھ کر نہ صرف ایک انقلابی لائحہ عمل ترتیب دیتا ہے بلکہ مستقبل کو عوامی مفادات سے ہم آہنگ بنانے کے لیے ایک طویل نظریاتی جدوجہد کی داغ بیل بھی ڈالتا ہے۔ چونکہ ایک مادیت پسند ناکامیوں اور پسپائیوں کو کامیابی کی ماں سمجھتا ہے اس لیے وہ متوقع ناکامیوں سے دلبرداشتہ ہوکر شکست تسلیم کرنے کی بجائے نظریے کے دائرے میں رہ کر خودتنقیدی کے مادی اصولوں کو بروئے کار لاکر اپنے عمل میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے تاکہ ناکامی کی کوکھ سے کامیابی کے ولی عہد کو پیدا کرسکے۔


اس تناظر میں اگر بلوچ قوم کی حقیقی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ روشن حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ بلوچ قوم معاشی طور پر بدحال، قومی تشخص سے محروم، معدومیت سے نبردآزما اور علم وہنر کے لحاظ سے مکمل تہی دست ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ ۔ نیشنل پارٹی کے” مادیت پسندانہ “نقطہ نظر کے مطابق اس کی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ بلوچ کے لیے تعلیمی پالیسی بلوچ تاریخ، ثقافت، ضروریات اور نفسیات کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے؟ پھر یہ کون اور کس مقصد کے تحت بناتا ہے؟ ۔ علم ، شعور اور منطق سے آراستہ وپیراستہ نیشنل پارٹی کے وہ تمام رہنما جو اس وقت بلوچ تحریک آزادی کو مہم جوئی، سردار ساختہ ہوائی قلعہ اور طالبان جیسی شدت پسندی ثابت کرنے کے لیے مختلف کتابیں چھان رہے ہیں ان کی نظروں کے سامنے سے یقینا کوئی ایسی تحریر گزری ہوگی جس میں پاکستانی نصاب تعلیم کی تشکیل کے پیچھے چھپے مقصد کو آشکار کیا گیا ہو پھر اس مقصد کے پس پشت کارفرما مادی عوامل مثلاً پاکستان کی تشکیل، ساخت، ریاستی نظام اور ان سب کی مادی تاریخ وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہو۔ اس تمام تر مطالعے کے بعد نیشنل پارٹی کے وہ رہنما جو علمی ، شعوری اور منطقی بنیادو ںپر جمہوری وطبقاتی سیاست کے علمبردار ہیں یقینا اس ٹھوس حقیقت سے واقف ہوں گے کہ پاکستان ایک جدید نوآبادی ہے جس کا اقتدار اعلیٰ اللہ کے نام پر پنجابی فوج کے پاس ہے۔ اور اس فوج کی تشکیل برطانوی مفادات کو سامنے رکھ کر نوآبادیاتی طرز پر کی گئی۔ آج یہ فوج عالمی طاقتوں کی پشت پناہی کے بل پر بقول عائشہ صدیقہ کے بلوچستان، سندھ، سرائیکستان اور پختونخواہ کی مجموعی زرعی وتجارتی اراضی میں سے تقریباً 45فیصد پر برائے راست کنٹرول رکھتی ہے۔چونکہ معیشت ہی سیاست یا نظام حکومت کا تعین کرتی ہے اس لیے عدلیہ، میڈیا، تعلیم، سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ الغرض تمام شعبے پنجابی مفادات کے گرد ہی گھومتے ہیں۔


اب نیشنل پارٹی کے رہنما، عقل، شعور اور منطق کی بنیاد پر وضاحت کریںکہ پاکستانی نظام ونصاب تعلیم میں پنہاں قوت بلوچ کے لیے گریز کا درجہ رکھتا ہے یا مائل کا؟ اگر ا ب بھی نیشنل پارٹی کے رہنما اپنے عینیت پسندانہ نقطہ نظر کو مادیت پسندانہ قرار دینے پر مصر ہو کر کہیں کہ گوریلا جنگ سماجی شعور کی پیدائش کا اہم محرک نہیں اور بلوچستان میں چونکہ اعلیٰ تعلیمی ادارے ناپید ہیں اور جو موجود ہیں سرداران کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں اس لیے بلوچ تعلیمی پسماندگی کا شکارہیں تو وہ ایک نظر کراچی اور مغربی بلوچستان پر ضرور ڈالیںجہاں پاکستان کے زیر انتظام صوبہ بلوچستان کے مقابلے میں نسبتاً بہتر تعلیمی ادارے موجود ہیں مگر کراچی میں بلوچ شناخت گینگ وار اور مغربی بلوچستان میں اسمگلر ہے۔


پاکستان کی حقیقی صورتحال کے پیش نظر چونکہ بلوچ کی تعلیمی پسماندگی سمیت اس کے تمام مسائل کی جڑ بلوچ اور پنجابی کے درمیان وہ رشتہ ہے جو مخاصمانہ مفادات پر استوار ہے اس لیے بلوچ کو بلوچ کی حیثیت سے قائم رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ پنجابی مفادات کو نقصان پہنچا کر بلوچ مفادات کا تحفظ کیا جائے۔


اگر بالفرض نیشنل پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ پنجابی سے نیا عمرانی معاہدہ کرکے سوائے تین محکموں کے دیگر تمام بلوچ کے حوالے کئے جائیں تو بلوچ مفادات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے تو یہاں سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کی تشکیل وساخت کا مخصوص پس منظر اور بلوچ وپنجابی درمیان موجود مخاصمانہ تضادات اس کی اجازت دیتے ہیں؟اگر بالفرض کسی خیال پسند کی مانند تمام تر تضادات کو نظر انداز کرکے یہ تسلیم کرلیا جائے کہ پنجابی بلوچ درمیان نیا عمرانی معاہدہ بعید از امکان نہیں تو اس بلوچ کا کیا ہوگا جو زاہدان کے پہاڑوں اور چابہار کے ساحلوں کے قریب بیٹھا ہزار سالہ بلوچ تاریخ اور بلوچ گلزمین کی حفاظت میں روز مرتا اور روز جیتا ہے؟ کیا نیشنل پارٹی گجر بلوچ درمیان بھی ایک نئے عمرانی معاہدے کی تجویز پیش کرے گی؟ کراچی میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی فورس المعروف پیپلز امن کمیٹی کے ہاتھوں یرغمال چالیس لاکھ بلوچوں کا مذکورہ عمرانی معاہدے میں کیا کردار ہوگا؟


یہ اور اس قسم کے دیگر ضمنی سوالات کی موجودگی میں شاید کوئی خوش فہم خیال پسند بھی پاکستان کو جمہوریت کا لباس فاخرہ پہنانے اور پنجابی بلوچ کے درمیان کسی نئے (ویسے نئے کی اصطلاح بھی خوب ہے کیونکہ جہاں تک بلوچ تاریخ کا تعلق ہے وہاں پنجابی کے ساتھ عمرانی معاہدے کی بجائے جبری الحاق اور فوج کشی کا ذکر ملتا ہے )


عمرانی معاہدے کا خواب دیکھنے کی عیاشی نہیں کرے گا۔ پھر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی نیشنل پارٹی کے بزعم خود سقراط وبقراط بلوچ کو پاکستان وایران کے دائرے میں رکھنے کی کوششیں کیوں کررہے ہیں؟ سیدھے سادے بلوچ مسئلے کو اس قدر گنجلک ، پیچیدہ اور مبہم بنانے کا سوائے اس کے کوئی مقصد نہیں ہوسکتا کہ بلوچ بقا اور شناخت کے مسئلے پر نہ صرف عالمی رائے عامہ بلکہ خود بلوچ عوام کو بھی تقسیم کردیا جائے۔ ”ایک چائے کڑک ملائی مار کے“اسٹائل میں نیشنل پارٹی نہ صرف بلوچ عوام کے سماجی وقومی شعور کے ارتقائی عمل میں رکاوٹ پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کررہی ہے بلکہ وہ بلوچ قومی اداروں کی ترقی وترویج اور بلوچ رہنماﺅں کی عوامی ساکھ کو بھی اسی طرح اپنی علمی وعملی تخریب کا نشانہ بنارہی ہے جس کا اعزاز ہماری دانست میں صرف پنجابی کے پاس ہے۔


یہ صرف الزام تراشی نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو کھلے عام نہ سہی لیکن تنہائی میں ضرور نیشنل پارٹی کے باشعور اور جمہوریت پسند اکابرین تسلیم کرتے ہوں گے کہ ان کا بے بنیاد نظریہ اور اس کا عملی اطلاق بلوچ مفاد سے مطابقت نہیں رکھتا۔ مثلاً، ایک جانب بلوچ قوم کی کم علمی کا رونا، رونا اور دوسری جانب بلوچ میڈیا بالخصوص روزنامہ”توار“کے علمی سرکل کو نشانہ بنانا، بلوچ اور پنجابی درمیان موجود حقیقی تضاد کو اصطلاحات کے گورکھ دھندوں میں چھپا کر اس کے حقیقی حل کو مہم جوئی قرار دینا، مارکسزم کو تسلیم کرنا مگر مارکسزم کے اس بنیادی اور انقلابی اصول کو کلی طور پر مسترد کرنا کہ معروضی حالات کی تشریح نہیں بلکہ معروضی حالات کو درست ادراک کرکے اسے بدلنا اصل کام ہے، پنجابی کے کلچرل حملے کو تعلیم قرار دینا مگر اس حملے کے بلوچ دفاع کو جذباتی پن اور جہالت پر معمول کرنا، بلوچ قوم، وطن اور قومی تاریخ کو خاکی پنڈی کے قدموں پر نچھاور کرکے وہاں صوبائیت کی سند پر خوشی سے پھول جانا اور پھر اس کو طریقہ کار کر اختلاف قرار دے کر شہید غلام محمد بلوچ اور مولا بخش دشتی کو ایک ہی منزل کا راہی قرار دینا، عصا ظفر کی دست کشی پر بغلیں بجانا اور ڈاکٹر اللہ نذر جیسے قابل فخر بلوچ سپوت کو اخباری بیانات وکالم کے ذریعے وحشی درندہ قرار دینے کا ناقابل معافی جرم کرنا۔


مالیاتی کرپشن کا ازالہ ممکن ہے مگر علمی کرپشن اور وہ بھی ان حالات میں جب قومی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہوں کسی بھی طرح نظر اندازنہیں کئے جاسکتے۔


میں پارٹی کے قابل احترام مگر سخت ترین نظریاتی مخالفین(کامریڈ لینن سے سوفیصد اتفاق ہے کہ نظریے پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہوسکتا) کو نہ تو غداری کا سرٹیفکیٹ دینا چاہتا ہوں اور نہ خودکو اس کا اہل تصور کرتا ہوں اس کا بہتر فیصلہ وہ بلوچ قوم کرے گی جسے نیشنل پارٹی نام ونہاد پنجابی دانشوروں سے کم تر قرار دے کر جاہلوں کا انبوہ سمجھتی ہے۔ مجھے ایمان کی حد سے بھی زیادہ یقین ہے کہ چرواہا، دہقان، مزدور، ماہی گیر، پنجابی فورسز کے ہاتھوں لٹتے، پٹتے، مرتے مگر۔۔۔۔لڑے بلوچ کبھی غلط فیصلہ نہیں کریں گے کیونکہ یہی وہ بلوچ ہیںجنہوںنے نوشیروان( نام ونہاد عادل) سے لے کر خاکی پنڈی تک ہر غاصب اور قابض کو للکار کر ہم تک بلوچ تاریخی ورثہ پہنچایا اور بلوچ قومی شناخت اور تشخص کو بچانے کا سائنسی راستہ دکھایا جس پر چل کر آج شہید غلام محمد بلوچ نے ”سائنسی وشعوری“جہد کے دعویداروںکے کردار وعمل کو طشت ازبام کردیا۔


ان کی خدمت میں ایک اردو شاعر کا شعر عرض کرتا ہوں


اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاﺅگے


خواب ہوجاﺅگے، افسانوں میں ڈھل جاﺅگے


دے رہے ہیں جو تمہیں آج رفاقت کا فریب


ان کی تاریخ پڑھو گے تو دھل جاﺅگے


اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو


سنگ مرمر پہ چلوگے تو پھسل جاﺅگے


خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو


دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاﺅگے


تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو


بھیڑ میں سست چلوگے تو ”کچل “جاﺅگے


No comments: