بلوچ گمشدگان اور پاکستانی معاشرہ
بالاچ خان
بالاچ خان
ارجنٹینا کے ناول نگار عمر ریوابیلا کا دہشت انگیز ناول
جس کا اردو ترجمہ معروف ادیب و دانشور آصف فرخی نے ”ماتم ایک عورت کا“ کے نام سے انتہائی خوبصورتی سے کیا ہے ”لاپتہ افراد“، ان کی ازیت ناک اور موت سے بدتر زندگی۔ ”گمشدگان“ کے لواحقین کی بے بسی اور معاشرے کی بے حسی کا ایک کریہہ المنظر عکس ہے۔ بقول آصف فرخی کے اس کتاب پر کرسچن سائنس مانیٹر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”یہ شدید مذمت کرتی ہے اذیت کے پورے سلسلے کی، ان حکومتوں کی جو اس کے احکام جاری کرتی ہیں اور ان معاشروں کی بھی جو اسے برداشت کرتے ہیں“
کتاب گو کہ ارجنٹینا کی فوجی حکومت اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے انقلابی جہد کاروں کے پس منظر میں لکھی گئی ہے مگر اس کا ایک ایک سطر بلوچ وطن، بلوچ قوم، پاکستانی نوآبادکار اور پاکستانی معاشرے (پنجاب، سندھ اور پختونخواہ) سے متعلق ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ کرسچن سائنس مانیٹر کے تبصرے پر آصف فرخی نے سرد آہ بھر کرکہا کہ ”کیا اس آخری فقرے کہ یہ کتاب شدید مذمت کرتی ہے ان معاشروں کی بھی جو اسے برداشت کرتے ہیں“کی زد میں ہم اور آپ نہیں آتے
بلوچ وطن میں اغواءنما گرفتاریاں، دوران حراست غیر انسانی تشدد، قتل اور پھر مسخ لاشوں کی برآمدگی ایک معمول بن چکی ہے۔ اس غیر انسانی صورتحال پر پاکستانی معاشرہ بے حسی کی آخری حدوں کو بھی پھلانگتی نظر آتی ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک اس کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی نظر نہیں آتی۔
میڈیا نان ایشوز پر گھنٹوں بحث کرتی نظر آتی ہے، سیاسی جماعتیں فروعی مسائل پر زمین کو تانبہ بنارہی ہیں، مذہبی جماعتیں امریکہ اور بھارت کی توپوں میں کیڑے بھر جانے کی دعائیں مانگ رہی ہیں، سول سوسائٹی گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑوں کے تحفظ پر زمین آسمان ایک کررہی ہے مگر، مگر اذیت کے ایک پورے سلسلے پر، انسان کی بے حرمتی پر، فرعون دوراں کی جھوٹی خدائی پر اور ”پراسرار“ و ”بے تیغ لڑتے مومنوں“ کی قاتل ادا ¶ں پر سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔
پاکستانی معاشرہ ذہنی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس دیوالیہ پن میں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں محمود و ایاز۔ کراچی، لاہور، پنڈی، حیدرآباد اور فیصل آباد کے کسی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سے بلوچ اور بلوچستان متعلق دریافت کریں، جواب ملے گا، بھارت کے ایجنٹ ہیں، سردار عوام دشمن ہیں، جی! احساس محرومی ہے، جناب یہ سارا امریکہ اور اسرائیل کا کیا دھرا ہے، یار یہ پنجابی کو مارنے والے فاشسٹ ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کے متعلق ان کی لاعلمی ملاحظہ ہو، کوئٹہ کے علاوہ کسی دوسرے شہر کا نام تک نہیں جانتے، بلوچ قوم کو ”بلوچی بھائی“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ بے حس معاشرے کے ان بے حس ارکان کو اگر بتایا جائے کہ بلوچستان سے ہزاروں لوگ ”لاپتہ“ ہیں جن میں سے سینکڑوں کی مسخ لاشیں برآمد ہوئی ہیں تو، نفرت سے جواب ملے گا ”ڈالر کی حصہ داری پر لڑائی کا نتیجہ ہے“۔ یہ محض ہوائی باتیں نہیں ہیں، بلکہ پاکستانی معاشرے کے انتہائی پڑھے لکھے سمجھے جانے والے افراد کی آن دی ریکارڈ باتیں ہیں۔ اس کھوکھلے اور بے حس معاشرے میں کوئی ایسا نہیں جو کمسن مہلب بلوچ کی صدا ”میرے ابو دو سال سے گھر نہیں آئے“ پر تڑپ اٹھے، بھائی کی گمشدگی پر سنیہ کریم کا نوحہ بے اثر، ذاکر مجید کی ہمشیرہ کی افسردہ نگاہیں بے قدر، جوان بیٹے کی تلاش میں سرگرداں قدیر بلوچ ’کچھ نہیں‘ بیٹے کی مسخ لاش وصول کرکے پوتے آصف بلوچ کیلئے آزردہ دادی ہوں یا پھول جیسے الیاس نذر کی مسلی ہوئی لاش وصول کرنے والی ماں، اس پست ذہنیت کے حامل معاشرے میں کوئی ایسا نہیں جو عمر ریوابیلا کی طرح چلا کر کہے، بس بہت ہوگیا۔
ناول میں پھر بھی ایک پادری اس ظلم پر احتجاج کرتا ملتا ہے مگر پاکستان کی مسجدوں میں کوئی ایسا مولوی دکھائی نہیں دیتا جو اپنے وعظوں میں ظالم کو للکارسکے، اسلام کی سربلندی کے نام پر منافقت سے چھٹکارا پاکر اسلام کے اصل درس ”تم پر دوسرے مسلمان کا مال اور خون حرام ہے“ کی تشریح کرکے حاکمان وقت کے خلاف معاشرے کو جگادے۔ کوئی نہیں، کوئی بھی تو نہیں۔
اس معاشرے کے ساتھ بلوچ خود کو منسلک کرسکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ بلوچ بے حس نہیں، مردہ ضمیر نہیں، اس معاشرے کا حصہ نہیں۔ بابا مری درست فرماتے ہیں، ہم سور کے ساتھ رہ سکتے ہیں مگر ان کے ساتھ نہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتاکہ بلوچ پہاڑوں سے اتر کر پنجاب کی عوامی عدالت میں اپنا مقدمہ لڑیں۔ یہ تو ایسا ہے جیسے کوئی سراب کے پانی میں نہاکر آسمان میں اگے پھولوں کو اپنے جسم پر لپیٹ کر ہرن کی سینگوں سے بنے کمان کو کاندھوں پر اٹھائے سمندر میں شیر کے شکار پر نکلے۔ پنجاب میں عوام نہیں پتھر کے بت بستے ہیں جو رائیونڈ کے تبلیغی مرکز کے خلاف بیان دینے پر رحمان ملک پر توغراسکتے ہیں مگر بلوچستان میں جاری روح فرساں واقعات پر پرسکون رہتے ہیں۔
صحافی سلیم شہزاد کی لاش پر ہم نے اسلام آباد میں پنجابی صحافیوں کا دھرنا دیکھا مگر علی شیر کرد اور لالہ حمید جیسے قلم کاروں کی دنیا سے اذیت ناک بے دخلی پر ہم نے خاموشی کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ بلوچ اپنا مقدمہ فرعون و نمرود کی عدالت میں بھلا کیسے پیش کریں جہاں ہردست، دست قاتل ہے، رنگین نقاب کے پیچھے چھپے مکروہ چہرے اپنے ”مکروہ عمل“ سے پہچانے جاچکے ہیں اب ان سے کوئی مفاہمت، کوئی سمجھوتہ اور کوئی دوستی نہیں ہوسکتی۔ سردار اختر مینگل کے اس مطالبے پر بھی کبھی ہنسی آتی ہے تو کبھی جگر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ پنجاب کو بلوچ قوم سے متعلق اپنا رویہ بدلنا چاہئے۔ کیا جواب ملا سردار مینگل کو اس مطالبے پر؟۔ جمعہ خان رئیسانی اور ساتھیوں کی لاش۔ یہ ہے، پاکستانی ذہن، اس کو بدلتے بدلتے کہیں ہم نہ ”بدلیں“ جائیں۔ بس بہت ہوگیا۔
کتاب گو کہ ارجنٹینا کی فوجی حکومت اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے انقلابی جہد کاروں کے پس منظر میں لکھی گئی ہے مگر اس کا ایک ایک سطر بلوچ وطن، بلوچ قوم، پاکستانی نوآبادکار اور پاکستانی معاشرے (پنجاب، سندھ اور پختونخواہ) سے متعلق ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ کرسچن سائنس مانیٹر کے تبصرے پر آصف فرخی نے سرد آہ بھر کرکہا کہ ”کیا اس آخری فقرے کہ یہ کتاب شدید مذمت کرتی ہے ان معاشروں کی بھی جو اسے برداشت کرتے ہیں“کی زد میں ہم اور آپ نہیں آتے
بلوچ وطن میں اغواءنما گرفتاریاں، دوران حراست غیر انسانی تشدد، قتل اور پھر مسخ لاشوں کی برآمدگی ایک معمول بن چکی ہے۔ اس غیر انسانی صورتحال پر پاکستانی معاشرہ بے حسی کی آخری حدوں کو بھی پھلانگتی نظر آتی ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک اس کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند ہوتی نظر نہیں آتی۔
میڈیا نان ایشوز پر گھنٹوں بحث کرتی نظر آتی ہے، سیاسی جماعتیں فروعی مسائل پر زمین کو تانبہ بنارہی ہیں، مذہبی جماعتیں امریکہ اور بھارت کی توپوں میں کیڑے بھر جانے کی دعائیں مانگ رہی ہیں، سول سوسائٹی گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑوں کے تحفظ پر زمین آسمان ایک کررہی ہے مگر، مگر اذیت کے ایک پورے سلسلے پر، انسان کی بے حرمتی پر، فرعون دوراں کی جھوٹی خدائی پر اور ”پراسرار“ و ”بے تیغ لڑتے مومنوں“ کی قاتل ادا ¶ں پر سب نے چپ سادھ رکھی ہے۔
پاکستانی معاشرہ ذہنی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس دیوالیہ پن میں ایک ہی صف میں کھڑے ہیں محمود و ایاز۔ کراچی، لاہور، پنڈی، حیدرآباد اور فیصل آباد کے کسی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سے بلوچ اور بلوچستان متعلق دریافت کریں، جواب ملے گا، بھارت کے ایجنٹ ہیں، سردار عوام دشمن ہیں، جی! احساس محرومی ہے، جناب یہ سارا امریکہ اور اسرائیل کا کیا دھرا ہے، یار یہ پنجابی کو مارنے والے فاشسٹ ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کے متعلق ان کی لاعلمی ملاحظہ ہو، کوئٹہ کے علاوہ کسی دوسرے شہر کا نام تک نہیں جانتے، بلوچ قوم کو ”بلوچی بھائی“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ بے حس معاشرے کے ان بے حس ارکان کو اگر بتایا جائے کہ بلوچستان سے ہزاروں لوگ ”لاپتہ“ ہیں جن میں سے سینکڑوں کی مسخ لاشیں برآمد ہوئی ہیں تو، نفرت سے جواب ملے گا ”ڈالر کی حصہ داری پر لڑائی کا نتیجہ ہے“۔ یہ محض ہوائی باتیں نہیں ہیں، بلکہ پاکستانی معاشرے کے انتہائی پڑھے لکھے سمجھے جانے والے افراد کی آن دی ریکارڈ باتیں ہیں۔ اس کھوکھلے اور بے حس معاشرے میں کوئی ایسا نہیں جو کمسن مہلب بلوچ کی صدا ”میرے ابو دو سال سے گھر نہیں آئے“ پر تڑپ اٹھے، بھائی کی گمشدگی پر سنیہ کریم کا نوحہ بے اثر، ذاکر مجید کی ہمشیرہ کی افسردہ نگاہیں بے قدر، جوان بیٹے کی تلاش میں سرگرداں قدیر بلوچ ’کچھ نہیں‘ بیٹے کی مسخ لاش وصول کرکے پوتے آصف بلوچ کیلئے آزردہ دادی ہوں یا پھول جیسے الیاس نذر کی مسلی ہوئی لاش وصول کرنے والی ماں، اس پست ذہنیت کے حامل معاشرے میں کوئی ایسا نہیں جو عمر ریوابیلا کی طرح چلا کر کہے، بس بہت ہوگیا۔
ناول میں پھر بھی ایک پادری اس ظلم پر احتجاج کرتا ملتا ہے مگر پاکستان کی مسجدوں میں کوئی ایسا مولوی دکھائی نہیں دیتا جو اپنے وعظوں میں ظالم کو للکارسکے، اسلام کی سربلندی کے نام پر منافقت سے چھٹکارا پاکر اسلام کے اصل درس ”تم پر دوسرے مسلمان کا مال اور خون حرام ہے“ کی تشریح کرکے حاکمان وقت کے خلاف معاشرے کو جگادے۔ کوئی نہیں، کوئی بھی تو نہیں۔
اس معاشرے کے ساتھ بلوچ خود کو منسلک کرسکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ بلوچ بے حس نہیں، مردہ ضمیر نہیں، اس معاشرے کا حصہ نہیں۔ بابا مری درست فرماتے ہیں، ہم سور کے ساتھ رہ سکتے ہیں مگر ان کے ساتھ نہیں۔
ڈاکٹر مالک بلوچ کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتاکہ بلوچ پہاڑوں سے اتر کر پنجاب کی عوامی عدالت میں اپنا مقدمہ لڑیں۔ یہ تو ایسا ہے جیسے کوئی سراب کے پانی میں نہاکر آسمان میں اگے پھولوں کو اپنے جسم پر لپیٹ کر ہرن کی سینگوں سے بنے کمان کو کاندھوں پر اٹھائے سمندر میں شیر کے شکار پر نکلے۔ پنجاب میں عوام نہیں پتھر کے بت بستے ہیں جو رائیونڈ کے تبلیغی مرکز کے خلاف بیان دینے پر رحمان ملک پر توغراسکتے ہیں مگر بلوچستان میں جاری روح فرساں واقعات پر پرسکون رہتے ہیں۔
صحافی سلیم شہزاد کی لاش پر ہم نے اسلام آباد میں پنجابی صحافیوں کا دھرنا دیکھا مگر علی شیر کرد اور لالہ حمید جیسے قلم کاروں کی دنیا سے اذیت ناک بے دخلی پر ہم نے خاموشی کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ بلوچ اپنا مقدمہ فرعون و نمرود کی عدالت میں بھلا کیسے پیش کریں جہاں ہردست، دست قاتل ہے، رنگین نقاب کے پیچھے چھپے مکروہ چہرے اپنے ”مکروہ عمل“ سے پہچانے جاچکے ہیں اب ان سے کوئی مفاہمت، کوئی سمجھوتہ اور کوئی دوستی نہیں ہوسکتی۔ سردار اختر مینگل کے اس مطالبے پر بھی کبھی ہنسی آتی ہے تو کبھی جگر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ پنجاب کو بلوچ قوم سے متعلق اپنا رویہ بدلنا چاہئے۔ کیا جواب ملا سردار مینگل کو اس مطالبے پر؟۔ جمعہ خان رئیسانی اور ساتھیوں کی لاش۔ یہ ہے، پاکستانی ذہن، اس کو بدلتے بدلتے کہیں ہم نہ ”بدلیں“ جائیں۔ بس بہت ہوگیا۔