STOP !

keep it in your mind , BALOCH still slave

Search This Blog

Pages

Friday, June 25, 2010

ریکی کی تنہائی اور فرنٹ کی کج روی

مئی9 ,2010ء۔ایران کے زیرِ انتظام تمام کردشہروں کرمانشاہان، ایلام، سنندج، مہاباد، ارومیہ اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں مکمل ہڑتال ہے۔ چشم گریہ اور آتش زیر پا کرد طلباءسڑکوں پر چوراہوں پر ایرانی ریاست کے خلاف شدید نعرے بازی کرتے ہوئے ڈریکولا صفت ایرانی حکمرانوں کو دعوت مبارزت دے رہے ہیں۔
یہی صورتحال عراق کے زیر انتظام کردستان میں بھی ہے۔ احتجاج میں یورپ نشین کرد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ روم ، برلن، فرینکفرٹ، لندن، پیرس، میڈرڈ الغرض جہاں بھی کوئی کرد تھا وہ سڑکوں پر نکلا۔
کرد مشتعل تھے فرزاد کمانگر کے لیے۔ 32سالہ فرزاد کمانگر، جو بیک وقت ایک شاعر، ٹیچر، سماجی کارکن اور صحافی ہے۔ ان کا آبائی شہر کامیاران، جس کی تعریف میں انہوںنے متعدد قصیدے لکھے، وہ شہر آج ایک دہکتے تنور کے قالب میں ڈھل چکا ہے۔ کیونکہ فرزاد کمانگر آج جسمانی طور پر نہیں رہا۔ انہیں ان کے 5دوستوں سمیت ایرانی جلاد صفت حکمرانوں نے پژاک (PEJAK)سے وابستگی کے الزام میں تختہ دار پر لٹکادیا ہے۔
فرزاد کی وابستگی پژاک سے تھی یا نہیں یہ تو نا معلوم ہے البتہ یہ حقیقت ہے کہ وہ سرتاپاایک ”کرد“ تھا ، کردوطن کا سچا عاشق۔ وہ بہادر تھا تبھی تو جب کرد رہنما احساس فتحیان کو ایرانی عدالت نے پھانسی کا حکم سنایا تو اس مرد حرد نے عبداللہ اوجلان اور چے گویرا کی تصویروں کے ساتھ اس سزا کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔ ” یہ ہمیں ایرانی بنانا چاہتے ہیں مگر ہم ہزاروں سال سے کرد ہیں اور ابد تک رہیں گے ،یہ ہماری قومی شناخت ہے، اس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے، ہم مادیگ کے وارث ہیں جنہوںنے ایرانی سلطنت ساسانیہ کے بادشاہ اردشیر کو شکست دے کر کردستان کا دفاع کیا، کردستان ایک بے جا ن زمین کا نام نہیں وہ لہو بن کر ہماری رگوں میں دوڑتا ہے“۔ بھوک ہڑتال کے بعد فرزاد کمانگر نے ان جملوں کو اپنے بلاگ میں لکھا۔
9مئی 2010ئ۔ فزاد کمانگر اپنی سرزمین پر قربان ہوگیا۔ شہید غلام محمد بلوچ، شہید اکبر ، شہید بالاچ، شہید خالد، شہید قدیر اور دیگر بلوچ شہداءکی طرح۔ کردوں نے اس فرزند وطن کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا۔
فرزاد کمانگر کی شہادت کو 40دن گزرگئے۔
20جون 2010ئ۔ ایران کے زیر انتظام تمام بلوچ شہروں زاہدان ، پہرہ (ایرانشہر) ، سراوان، گہہ (نیکشہر)، چابہار، خاش اور کنرک میں زندگی معمولی کی طرح رواں دواں ہے۔ بلوچ طلباءحصول علم ایرانی میں مشغول ہیں۔ بازاروں کی رونقیں بھی قائم ہیں۔ البتہ بعض مقامات پر چند بلوچ آپس میں آج کے واقعے پر سرگوشی کررہے ہیں، کسی نے تاسف کا اظہار کیا، کسی نے دعائے مغفرت کی، کسی نے پوچھا، اب کیا ہوگا؟سوال گونجتا رہا، جواب ماتھے کی شکنوں سے آیا، پتہ نہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام بلوچستان میں صورتحال تھوڑی سی مختلف ہے۔ آزادی پسندوں کے اتحاد بی این ایف نے احتجاج اور سوگ کا اعلان کیا ہے۔ ناروے سے خبر آئی ہے وہاں بھی احتجاج کا اعلان ہوا ہے۔
مرزا غالب یاد آتے ہیں، آپ بھی یاد کریں۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشہ مرے آگے
بلوچ منقسم ہیں مالک ریکی کے لیے۔ عبدالمالک ریکی جو شدت پسند سنی تنظیم جند اللہ کا سربراہ تھا۔ ان کا آبائی شہر زاہدان جو اپنی مزاحمتی فطرت کے حوالے سے معروف ہے پرسکون ہے، ان کا کراچی میں واقع مدرسہ بنوری ٹاﺅن جس کے مقتول سربراہ مفتی نظام الدین شامزئی طالبان کے استاد اور آئی ایس آئی کے رفیق جانے جاتے تھے مکمل خاموش ہے۔ حالانکہ عبدالمالک ریکی کو ایران تختہ دار پر لٹکا چکا ہے۔ سب خاموش ہیں صرف بی این ایف غرار رہی ہے۔ عبدالمالک ریکی کو ” دانشوران ملک وملت“ محترم انور ساجدی اور قابل احترام صورت خان مری( جن کے نشتر
پہلے شہید غلام محمد اور اب اتحاد مری، خلیل بلوچ اور بشیر زیب پر خوب چلتے ہیں) بلوچ مزاحمت کی علامت قرار دیتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے چابہار کے ساحل سے لے کر تا زابل کے ریگزار ایک
پتہ بھی نہیں ہلتا۔
بعض خوش فہم بلوچوں کا موقف ہے کہ چونکہ مغربی بلوچستان پر جبر کے سیاہ بادل کافی گہرے ہیں اس لیے احتجاج کی روشنی کا کوئی امکان نہیں۔مغربی بلوچستان کے سیاسی مزاج سے واقف افراد بخوبی جانتے ہیں کہ اس خیال میں رتی بھر صداقت نہیں۔جب بھی بلوچ قومی احساسات مجروح ہوئے ہیں۔ مغربی بلوچستان آگ بگولہ ہوا ہے۔ آج بھی اگر مولانا عبدالحمید احتجاج کی کال دیں تو ایرانی رٹ خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ مگر چونکہ عزت مآب مولانا سرکاری نمک خوار ہیں اس لیے اس کی نوبت شاید ہی کبھی آئے۔پھر کیا وجہ ہے کہ فرزاد کمانگر کے برعکس عبدالمالک ریکی اپنی موت کے بعد بھی تنہا ہیں؟ہوسکتا ہے انور ساجدی ، صورت خان مری اور بی این ایف کے پاس اس حوالے سے کوئی ٹھوس دلیل ہو مگر بعض چیزیں عبدالمالک ریکی کے سفر زیست سے واضح ہیں۔ جہاں فرزاد کمانگر قومی جذبات ، احساسات ، خواہشات ، رجحانات اور مفادات کے مطابق راہ عمل ترتیب دے رہے تھے وہا ں ریکی بنوری ٹاﺅن کے مدرسے میں پاکستانی خفیہ اداروں کے نوالہ تر بننے کے مرحلے سے گزررہے تھے۔ پھر مالک ریکی اپنے ”دوستوں “ کی ہدایت پر ایک ایسے راستے پر چل پڑے ۔ جو بلوچ قومی مفاد کے ساتھ براہِ راست متصاد م تھا۔ مالک ریکی نے بلوچ قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر امریکی مفادات کے حصول کو اپنا مقصد بنالیا مگر حیرت ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو ہدف تنقید بنانے والے صورت خان مری نے ان کو قومی ہیرو بنا دیا حالانکہ مالک ریکی گرفتاری سے قبل بارہا کہہ چکے تھے کہ وہ ایرانی ریاست نہیں نظام کے خلاف ہیں اور گرفتاری کے بعد وہ برسرعام امریکہ وبرطانیہ سے اپنے تعلقات کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ہم اس دلیل کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ مالک ریکی کے اعترافات شدیدتشدد کا نتیجہ تھے کیونکہ اگر تشدد اعترافات کی کنجی ہے تو شہید غلام محمد، ڈاکٹر اللہ نذر، واحد کمبر اورلاپتہ بلوچ رہنما پاکستانی اذیت گاہوں میں ناقابل بیان تشدد کے باوجود پاکستانی خواہشات کے مطابق ”اعتراف جرم“ کیوں نہ کرسکے؟؟ یا کر د رہنما عبداللہ اوجلان سے ترکی اس قسم کا اعتراف کیوں نہ کراسکا؟؟ یہاں تک کہ فرزاد کمانگر اور بلوچ صحافی یعقوب مہر نہاد بھی ایرانی جبر کے ہاتھوں اس قدر مجبور نہ ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ مالک ریکی بلوچ معاشرے میں کل بھی تنہا تھا آج بھی تنہا ہے۔
میں محترم حفیظ حسن آبادی کی اس رائے سے بھی اتفاق نہیں رکھتا کہ ایران میں سنی ہونا جرم ہے اس لیے مالک ریکی اور جند اللہ کے نظریات، خیالات اور کارروائیا ں بلاجواز نہیں۔ میں آج بھی
اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ ایران میں کرد، بلوچ ، لر اور عرب ہونا سب سے بڑا جرم ہے۔ شیعہ سنی تضاد گو کہ ایران میں موجود ہے البتہ اس کی شدت وحدت قومی تضاد سے کئی سو گنا کم ہے۔ مثال کے طور پر، چابہار میں واقع جامع مسجد ایران میں سنیوں کی سب سے بڑی مسجد ہے مگر پورے مغربی بلوچستان میں ایک بھی بلوچ ثقافتی ادارہ نہیں، مولانا عبدالحمید عرصہ دراز سے سنی کونسل کے نام سے ایک فعال تنظیم کے سربراہ ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی بلوچ سیاسی وثقافتی تنظیم تشکیل دینے کا ارادہ ظاہر کرے، سنی کتابیں تواتر کے ساتھ شائع ہورہی ہیں مگر بلوچی کتابوں پر پابندی ہے اور یہاں تک کہ ایک سنی مولانا ایرانی پارلیمنٹ کارکن بن سکتا ہے مگر سیکولر بلوچ قوم پرست بلدیاتی الیکشن بھی نہیں لڑسکتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایران سنی شیعہ تضاد کا ڈرامہ رچھا کر بلوچ گجر تاریخی وحقیقی تضاد کو چھپانا چاہتی ہے اور افسوس مالک ریکی اس معاملے میںان کے فکری دوست ثابت ہوئے۔
دوسری جانب آزادی پسند بلوچ اتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ نے مالک ریکی کو آزادی پسند گوریلا کمانڈر قرار دے کر نہ صرف اپنے بلکہ مالک ریکی اور ان کے دوستوں پر بھی ظلم کیا ہے۔ مالک ریکی کے بیانات، تقاریر اور ان کی کارروائیاں ریکارڈ پر ہیں بی این ایف کے دوست طفلانہ ضد کے دائرے سے نکل کر ایک باران کاتجزیہ ضرور کریں جو چیخ چیخ کر مالک ریکی اور ان کی تنظیم کی حقیقت بتار ہے ہیں ۔ شاید خلیل بلوچ، عصا ظفر ، براہمدغ بگٹی، وہاب بلوچ، زاہد اور بشیر زیب کو یاد نہ ہو کہ مالک ریکی کی گرفتاری کے بعد جند اللہ کے نئے سربراہ ظاہر بلوچ نے اپنے پہلے جاری پالیسی بیان میں کیا کہا تھا۔اگر یاد نہیں تو ہم ان محترم رہنماﺅں کو یاد دلانے کی جسارت کرتے ہیں۔ ”ہماری جدوجہد ایرانی شاﺅنسٹ رجیم کے خلاف ہے، ہم ایرانی قوم کو ایک آسودہ زندگی دینا چاہتے ہیں۔ ہم کرد، لر، عرب، فارس، ترک، بلوچ اور ترکمن سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔“
بی این ایف بتائے ایرانی رجیم کی تبدیلی سے بلوچ قومی آزادی کا کیا تعلق؟؟؟۔اگر جند اللہ بلوچ مزاحمت کی علامت ہے جس طرح صورت خان مری، انور ساجدی، بی این ایف، بلوچ کمیونٹی ناروے، سمندر آسکانی اور دیگر ہمیں بتارہے تو جند اللہ نے بی ا ین ایف، بی ایل اے، بی ایل ایف اور بی آر اے سے تعاون کی اپیل کیوں نہ کی؟؟۔ جند اللہ بی این ایف کو سرے سے اپنا دوست تسلیم نہیں کرتی مگر اس کے باوجود ”بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ۔“

Thursday, June 10, 2010

لیاری کا مقدمہ

لیاری آج ایک بار پھر خوفناک جنگ کی آگ میں جھلس رہا ہے۔ مقابل نہ رحمان بلوچ ہے جسے پاکستانی پولیس اور میڈیا نے مشترکہ طور پر رحمان ڈکیت کے نام سے مشہور کروایا اور نہ ارشد بلوچ کہیں نظر آرہا ہے جن کو لیاری پر مسلط یوپی ، سی پی کلچر نے ”پپو “ بنادیا ہے۔ خونی جنگ میں ملوث یہ آتش زیر پااور خشمگین نو جوان گوکہ مختلف نام رکھتے ہیں مگر درحقیقت یہ ایک ہی ہیں۔ غلام قوم کے غلام فرزند، ٹھکرائے ہوئے، بہکائے ہوئے، احساس بیگانگی سے معمور، سماج کے خلاف بغاوت پر اتر آئے ہوئے۔

کلری، ایک ظلمت کدہ، جہاں وقار بلوچ نے پرورش پائی، وقار بلوچ ایک ٹیلنٹڈ مزاحیہ فنکار ہے مگر وہ لکھنﺅ یا آگرہ کا عمر شریف یا معین اختر نہیں، وہ بقا کی جنگ لڑتا بلوچ ہے، سوخموش ہے۔ اسی ظلمت کدے میں شب ظلمات کے دوران نور محمد بلوچ پیدا ہوا پتہ نہیں کیوں پاکستانی پولیس اسے بابا لاڈلہ کے مضحکہ خیز نام سے پکارنے پر مصر ہے۔ ”با با لاڈلہ پیدائشی مجرم ہے“ ایک خیالی پولیس اہلکار نے میرے کانوں میں سرگوشی کی۔ کیوں؟ میں نے کربناک لہجے میں پوچھا ”منشیات فروشی، ڈکیتی، چوری، قتل، اغواءبرائے تاوان، بھتہ خوری الغرض کون سا ایسا جرم ہے جو اس نے نہیں کیا “۔ اہلکار نے نفرت سے جواب دیا۔ ”یہ مکرانی ہے“ ،” مکرانی “ اس نے مزید کہا۔

میں سوچ کے دریا میں غرق ہوگیا۔ پیدائشی مجرم،،،،،،،میں دہراتا رہا۔ بلوچ وطن پر قبضہ کرکے جس نے کروڑوں بلوچوں کی زندگی برباد کردی وہ ”قائد اعظم “ ۔ پاکستانی آئین کو پیروں تلے روندنے والے ”سجیلے جوان “۔ بلوچ وطن پر بمباری کرکے ہزاروں کو قتل، لاکھوں کو بے گھر کرنے والا ”جئے بھٹو، جئے قائد عوام“ ۔ ٹیپو ٹر کاں والا اور طالبان کا سرپرست ”شیر پنجاب“ ۔ لندن نشین آدم خور ”قائد تحریک“ لیاری کی بدقسمتی کے خالق ومالک ”پاسبان ملک وملت“ ۔ مگر، بابا لاڈلہ ، پیدائشی مجرم۔

کوئی بھلا پیدائشی مجرم کیسے ہوسکتا ہے؟؟ یہ تو مادی ماحول اور معروضی حالات ہوتے ہیں جو فرد کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ شاہ بیگ لائن جہاں غلام محمد نور الدین کی سربراہی میں ان کے ساتھیوں واجہ عمر بخش، مولوی محمد عثمان، محراب خان، عیسیٰ خان، مولوی عبدالصمد سربازی، خان صاحب عثمان، پیر بخش شہداد اور اللہ بخش گبول کی کاوشوں سے بلوچ لیگ کا جنم ہوا۔ یہ وہی بلوچ لیگ ہے جس نے اولین بلوچ قوم پرست رہنما میر یوسف عزیز مگسی کی برطانوی سرکار کے ہاتھوں گرفتاری کے خلاف کامیاب تحریک چلائی۔ وہ 1930ءکے خوبصورت ماہ وسال تھے۔ بلوچ لیگ کی اثر پذیری کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ میر غوث بخش بزنجو جب علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تو انہوںنے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے کے لیے اسی تنظیم کو چنا۔ آج اسی شاہ بیگ لائن کا مزدور پیشہ نوجوان عبدالجبار، جھینگو کے نام سے اس خونی جنگ کا حصہ ہے۔ پرولتا یہ سے لمپر پرولتار یہ بننے کے اس پورے عمل میںپاکستانی بورژوا نے جو قبیح کردار انجام دیا کیا اس لحاظ سے پاکستانی بورژوا حکمران طبقہ اور اس کے مددگار مجرم نہیں؟؟۔ یقینا ہیں۔ مگر نوآبادیاتی پولیس کی فہرست میں ان کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

شاہ بیگ لائن کے سیاسی ماحول اور مزاج کو بگاڑ کرعبدالجبار کو جھینگو بننے پر مجبور کرنے والے ”پیدائشی مجرم مکرانی“ نہیں بلکہ اسلام آباد کے وہ پالیسی ساز ہیں جنہوںنے ہر لمحہ کنکریٹ اور شیشوں میں گھرے سرد ماحول میں بیٹھ کر لیاری کو دہکتے جہنم کے قالب میں ڈھالنے کے خوفناک مگر کامیاب منصوبے بنائے۔

”لیاری امن کمیٹی کا سربراہ سب سے بڑا غنڈہ ہے۔“نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو پاکستانی ایوان بالا میں چیخ چیخ کر دنیا کو بتارہا تھا۔ معروف بلوچ ٹرانسپورٹر فیض محمد بلوچ کا بیٹا عذیر بلوچ ٹرانسپورٹ کا شعبہ جس پر آج بھی پنجابی اور پختون کا قبضہ ہے چھوڑ کر ان تاریک راہوں کا مسافر کیوں بنا؟ ۔ حاصل بزنجو نے نہ یہ بتایا اور نہ وہ بتائیں گے۔ کیونکہ حاصل خان بزنجو کا تعلق بلوچ قوم پرستوں کے اس قبیلے سے ہے جنہوںنے بلوچ لیگ کو ترقی دینے کی بجائے اس کا شیرازہ بکھیر دیا،لیاری کو بیچ منجدھار چھوڑ کر بلوچستان کی چند سیٹوں کے حصول کوانہوںنے اپنا مقصد بنالیا، پنجاب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قومی مفادات کا سودا کیا۔ عذیر بلوچ غنڈہ کب تھا؟ اسے تو کراچی کے غنڈوں نے نگل لیا۔ بھارت سے آئی ہوئی کالی آندھی، لاڑکانہ سے اتری ہوئی آفت اور لاہور سے چلنے والی خاکی ہوائیں، بلوچ قوم پرستوں کے اس قبیلے نے لیاری کے عذیروں، رحمانوں، اور لاڈلوں کو ان غنڈوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔

نواب شاہ سے اسلام آباد تک کے مسافر زرداریوں نے ان سے سینماﺅں کے ٹکٹ بلیک کروائے، باران سے براستہ لیاری ، اسلام آباد پہنچنے والے گبولوں نے نوکریوں کا جھانسہ دے کر ان کے اذہان بھٹکائے۔ سیاسی شعور سے آراستہ وپیراستہ ظفر بلوچ کو ایسے کام پر لگادیا گیا جو در حقیقت اس کا نہیں، مگر وہ کررہاہے کیونکہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ سیاست کا رخ بدلنے کے لیے انور بھائی جان کا بت تراشا گیا کام نکل جانے کے بعد اسے بے دردی سے توڑا گیا،ناصر کریم بلوچ کو دیوار سے لگادیا گیا، پروفیسر شاہین کا مذاق اڑایا گیا، پاکستانی پارلیمنٹ کو سجدہ کرنے والے بلوچ قوم پرستوں نے ہر اس عمل کی پس پردہ حمایت کی جس سے لیاری کی تباہی یقینی ہو۔

جب غفار بلوچ ذکری نہیں تھا۔ اس وقت علی محمد محلہ اور قرب وجوار بلوچ قوم پرست سیاست کا مرکز مانا جاتا تھا، یہاں کے محنت کش بلوچوں نے سیاست کی اعلیٰ روایات کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا، یہاں کے نوجوان اسلم بلوچ نے منشیات مخالف تحریک کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے بی ایس او کا سر فخر سے اونچا کردیا مگربلوچ رہنماﺅں کی کم فہمی اور اسلام آباد کے پالیسی سازوں بشمول آلہ کار بھٹو کی پالیسیاں رنگ لائیں آج یہاں راکٹ برس رہے ہیں۔ لندن، نواب شاہ اور پنڈی کی جنگ کا مرکز علی محمد محلہ اور ایندھن بلوچ بن رہے ہیں۔ آزادی پسند بشمول صوبائی مختاری بلوچ قیادت حالات وواقعات کا درست اور ٹھوس تجزیہ کرنے، لیاری کا ہنگامی دورہ کرنے، عوام اور متحارب افراد سے رابطہ رکھنے کی بجائے اخباری بیانات دے کر خود کو سرخرو کررہے ہیں۔

مانا کہ لیاری پی پی گزیدہ ہے، اس کے رگ رگ میں پی پی کا پھیلایا ہوا زہر دوڑ رہا ہے، وہ بلوچ لیگ کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے مگر نواب خیر بخش مری، براہمدغ بگٹی، اللہ نذر، عصا ظفر، خلیل بلوچ، ڈاکٹر بشیر عظیم کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پی پی جاگیردارانہ مفادات کا اسیر ہے، وہ جی ایچ کیو کا پروردہ ہے، اسے صرف کراچی پر قبضہ کرنا ہے ، چاہے اس کے لیے رحمان چوہدری کے ہاتھوں قتل ہو یا انور بھائی جان نامعلوم افراد کے ہاتھوں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پروفیسر صبا دشتیاری، وہاب بلوچ، کامریڈ واحد اور حنیف دلمراد بلوچ لیگ کی آخری کڑیاں ہیں یہ ٹوٹ گئیں تو سب تباہ ہوکر دریابرد ہوجائے گا۔کراچی بلوچ شہ رگ ہے اس کے خلاف جاری سازشوں کا ہر صورت مقابلہ کرنا ہوگا بصورت دیگر گل محمد لائن عارف بارکزئی، کلری اسلم بلوچ، نوالین خیر محمد ندوی، بغدادی نادر شاہ عادل، شاہ بیگ لائن جاڑک ، گولیمار ولی بلوچ، کیا ماسری ظفر علی ظفر، کلاکوٹ اصغر علی آزگ اور ریکسر لائن عبداللہ شاد اللہ جیسے نابغہ روزگار شخصیات پیدا کرنا چھوڑ دے گا۔

قاضی داد ریحان کو یہ غلط فہمی ذہن سے نکالنی ہوگی کہ لیاری کو نجات دہندہ کا انتظار ہے۔ لیاری کو نجات دہندہ بننے کی سزاد ی جارہی ہے۔ لیاری اپنے قیام سے لے کر آج تک جہدللبقا میں تنہا ہے، وہ تھک چکا ہے، لہولہا ن ہے، پھر بھی لڑرہا ہے، اگر وہ بلوچستان کو پکاررہا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ نجات دہندہ ہے بلکہ اس لیے کہ اسی کی بے وفائی نے اسے اس حال تک پہنچایا ہے۔ بلوچ قیادت نواب حمل موسیٰ کے بچگانہ ٹوٹکوں کی بجائے ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر لیاری کا مقدمہ لڑے۔ رحمان بلوچ اس لیے پیدا نہیں ہوتے کہ انہیں چوہدری قتل کریں ۔ پاکستان اور اس کے آلہ کاروں کوواضح اور دوٹوک انداز میں یہ پیغام دینا ہوگا۔

مقدمہ لڑنے کے لیے کیس کے تمام پہلوﺅں کا تفصیلی جائزہ اور جزئیات پر مکمل نظر رکھنا ہوگی۔ پیپلزامن کمیٹی کی تشکیل راتوں رات اچانک نہیں ہوئی۔ کراچی میں مہاجرین ہندوستان (اردو اسپیکنگ ، کچھی، میمن، بوہرہ، آغا خانی، بہاری) کی آمد، پختون یلغار، حکمران طبقوں( پختون، مہاجر اور پنجابی سول وملٹری بیورو کریسی)کے اندرونی تضادات ، ہارون خاندان(ڈان گروپ ) کی لیاری کو فتح کرنے کی خواہش، باران کے بلوچ جاگیردار گبولوں(ا للہ بخش گبول، عبدالستار گبول، نبیل احمد گبول ) کی ہارون خاندان اور پھر ایم کیو ایم سے چشمک ، خنجر بردار کالا ناگ اور الیاس برادران( داد محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ اور بیک محمد بلوچ) کے درمیان مخاصمت وہ عوامل ہیں جنہوںنے پیپلزامن کمیٹی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی کی سیاست ، معیشت اور انتظامیہ پر مہاجر اور پختون قابض ہوئے۔ مزدوری کے وہ پیشے جن پر بلوچوں کا تکیہ تھا وہاں سے بلوچ بے دخل کردیے گئے۔ سرکاری نوکری کا تصور محال تھا، وسیع وعریض بلوچ سرزمین کو گبولوں نے اپنی ملکیت تسلیم کرواکے مقتدرہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سرکار کو بخش دی۔مہاجر، پختون، ہارون اور گبول خاندان چونکہ کراچی کے مقامی باشندے نہ تھے اس لیے وہ مقامی آبادی کے سامنے نفسیاتی لحاظ سے عدم تحفظ کا شکار تھے۔ اپنے تحفظ کے لیے انہوںنے مقامی آبادی ( بلوچ ) کی بجائے اپنے رشتے پاکستانی حکمران کلب سے استوار کئے۔ گبول خاندان کا آبائی تعلق چونکہ کیر تھر کے پہاڑی سلسلوں میں واقع باران سے تھا جبکہ ان کی سیاسی قوت کا مرکز کراچی بالخصوص بلوچ آبادی ہے اس لیے نفسیاتی طور پر وہ بلوچ سے خائف ہیں۔ بلوچ قوم کی سیاسی ومعاشی ارتکاز سے گبول سیاسی مفادات کو خطرات لاحق تھے ، یہی مسئلہ مہاجر اور پختونوں کے ساتھ تھا اس لیے انہوںنے بلوچوں کے خلاف آپس میں ایکا کرلیا۔ دوسری جانب ہارون خاندان گوکہ کسی حد تک مقامی تھا مگر ان کا کوئی حلقہ انتخاب نہ تھا اس لیے ان کا انحصار بھی گبول خاندان کی طرح لیاری پر تھا۔ ہارون خاندان نے لیاری سے گبولوں کی بے دخلی کو ممکن بنانے کے لیے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت کی۔

لیاری کو پسماندہ رکھنے کی سرکاری خواہش کی وجہ سے لیاری شہر کے مقابلے میں کافی پیچھے رہ گیا۔ دوسری جانب لیاری پر قبضہ کرنے کے لیے ہارون خاندان نے لیاری کے راہ گم کردہ نوجوانوں کابھرپور استعمال کیا۔ یہاں سے الیاس برادران کا ظہور ہوا۔ ہارون خاندان کی سرپرستی ملنے کے بعد الیاس برادران نے غربت اور محرومی کو شکست دینے کے لیے منشیات کا دھندہ شروع کرکے اس دھندے میں پہلے سے موجود کالا ناگ کو چیلنج کردیا۔ تاہم ان کے درمیان کسی خوفناک تصادم کی نوبت نہ آئی۔ کالا ناگ کی موت کے بعد الیاس برادران کی طاقت مزید بڑھ گئی۔ ہارون خاندان ایوب خان آمریت کے خاتمے تک لیاری پر حکومت کرتا رہا۔ مگر ، پھر بھٹو آگیا۔ بھٹو کے ساتھ بلوچ قوم پرست بھی آپہنچے۔ بلوچ قوم پرستی کی جڑیں کمزور ہوچکی تھیں مگر توانائی موجود تھی۔ مقتدرہ نے بلوچ قوم پرستی کا راستہ روکنے کے لیے بھٹو کی حمایت کی گبول خاندان نے اس کو موقع غنیمت جانا۔ وہ بھٹو سے مل گئے۔یوسف ہارون پاکستان چھوڑ گیا، الیاس برادران گبول چھتری کے نیچے آگئے۔ گبول خاندان نے کھویا ہوا اقتدار پھر حاصل کرلیا مگر عوام کی حالت بہتر بنانے کا مقصد اب بھی ان کا نہ تھا۔ وجہ وہی تھی عدم تحفظ اور مقتدرہ کی خواہش۔

بھٹو کی پھانسی، ضیاءالحق کا افغان جہاد اور بلوچ قوم پرستوں کی بے وفائی۔ لیاری تنہا رہ گیا بقا کی جدوجہد میں۔ اسلحہ اور منشیات کے سیلاب نے لیاری میں تباہی مچادی۔ بھٹو کے جیالے پراسرار جمہوریت پر فدا ہونے لگے، قوم پرست کنارہ کش ہوگئے، ضیاءانتظامیہ نے ایک جانب ایم کیو ایم کے نام سے کاغذی شیر بنایا دوسری جانب لیاری کو اس سے ڈرایا، ڈرنے انور بھائی جان کے بلوچ اتحاد کو جنم دیا، سیاسی انارکی نے سماجی برائیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ حاجی لعل محمد لالو، اللہ بخش اور اقبال عرف بابو تاریک راہوں کے نئے مسافر بنے۔ الیاس برادران کی گدی کون سنبھالے گا؟ تینوں لڑ پڑے اور مقتدرہ ان کو لڑاتی رہی۔

غربت، پسماندگی، بے روزگاری اور نوآبادیاتی نظام نے بلوچ معاشرے کو شکست وریخت کی جانب لڑھکادیا۔ کوئی انقلابی سیاسی جماعت نہیں تھی جو نوجوانوں کی دست گیری کرتی نوجوان بھٹک گئے، حنیف عرف بجو لا کی طرح۔ حنیف عرف بجولا اقبال عرف بابو کا بازو بن گیا مگر حاجی لعل محمد لالو قائم رہا۔ خونی جنگ شروع ہوگئی ۔

پھر بے نظیر آئی، شادی کی، اقتدار سنبھالا، سبز باغ دکھائے، گبول خاندان کو پھر زندگی دی۔ گبول خاندان نے اقبال عرف بابو پر دست شفقت رکھا، اقبال نے پر پر زے پھیلائے، مجید بلوچ کو اسپیڈ بنادیا۔

بے نظیر دوبار اقتدار میں آئی مگر اپنی مخصوص جاگیردار انہ ذہنیت کے باعث اس نے لیاری کے سامنے چند نوکریوں کے ٹکڑے پھینکے مگر مادی ماحول کو مثبت سمت موڑنے کی کوشش نہیں کی۔ غیر صحت مند ماحول نے الیاس برادران کے جانشین کو متعارف کروایا۔ پر دہ اسکرین پر رحمان بلوچ چھاگیا۔ بھٹو پارٹی نے کراچی میں پیوستہ مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے پہلے اقبال عرف بابو پھر رحمان بلوچ کو استعمال کیا۔ بلوچ قوم پرستی کا راستہ روکنے کے لیے پاکستانی سول وملٹری بیوروکریسی نے رحمان بلوچ کو مزید تراشا۔ رحمان بلوچ نے ایک خونی لڑائی کے ذریعے اپنے مخالفین حاجی لعل محمد لالو اور اقبال عرف بابو کا تختہ الٹ دیا۔

رحمان بلوچ کو غلط فہمی ہوگئی کہ اس کی طاقت اس کی اپنی ملکیت ہے اس لیے اس نے اپنی طاقت کو سماجی کاموں میں استعمال کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ کراچی میں بلوچ قوت کا نمائندہ بن سکے۔ اس نے اسٹریٹ کرائمز کا خاتمہ کردیا، تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی، تفریحی پارک بنوائے، غریبوں کی امداد کی اور سب سے بڑھ کر کراچی کے دیگر علاقوں کی جانب پیش قدمی کی۔ رحمان بلوچ کی ان پالیسیوں کے باعث بلوچ قوم پرست باالخصوص بی این ایف میں شامل اتحادی جماعتوں کو منظم ہونے کا موقع مل گیا۔ لیاری میں بلوچ لیگ کے زندہ ہونے کے امکانات بڑھ گئے۔ یہ صورتحال نہ صرف مقتدر طاقتوں بلکہ بھٹو پارٹی کے لیے بھی ناقابل قبول تھی۔

بالآخر لیاری مخالف اتحاد نے رحمان بلوچ کو راستے سے ہٹادیا۔ چونکہ رحمان بلوچ ایک انقلابی نہیں بلکہ عمل کا ردِ عمل تھا اس لیے اس کے بعد اس کی بنائی ہوئی پیپلز امن کمیٹی اپنی سابقہ ہیئت برقرار نہ رکھ سکی اور اس میں متعدد شگاف پڑگئے جس سے اس کی مضبوط بارگیننگ پوزیشن کمزور پڑگئی۔ گوکہ لیاری مخالف اتحاد اپنے مقصد میں تو کامیاب ہو گئی مگر وہ اپنے اندرونی تضادات پر قابو نہ پاسکی۔ حکمران طبقے کے اندرونی تضادات سانحہ علی محمد محلہ کا موجب بنے۔ لیاری مخالف اتحاد کے پیوستہ مفادات کی جنگ نے کلری کی زمین کو تانبہ بنادیا۔ آثار بتارہے ہیں غفار بلوچ کو بے دخل کردیا جائے گا۔

مگر پھر کیا ہوگا؟ ۔ جنگ ختم؟ یقینا نہیں، متضاد مفادات کے حامل گروہوں کے درمیان معاشی بالادستی کی جنگ جاری رہے گی جس طرح سرمایہ دار دنیا میں کبھی افغانستان ، کبھی عراق تو کبھی فریڈم فرٹیلا جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ گوکہ اس مفاداتی جنگ کا خاتمہ بلوچ قومی آزادی سے مشروط ہے مگر لیاری کو اس جنگ کا ایندھن بننے سے بچانا ہوگا۔ جو بلوچ نوجوان اس راہ پر نکل چکے ہیں ان کی واپسی ممکن نہیں۔ چاہے اس کے لیے نواب حمل موسیٰ کے ٹوٹکے ہی کیوں نہ استعمال کئے جائیں۔

اس وقت ضرورت عوام سے رابطہ کرنے کی ہے جو سیاسی تنہائی کا شکار ہےں۔30سال کا کچرا 30دن میں صاف نہیں ہوسکتا۔ پیپلز امن کمیٹی سے تصادم بلوچ دشمن قوتوں کو تقویت پہنچائے گا اس لیے ان سے تصادم سے گریز کرکے سیاسی کارکنوں کی تربیت پر دھیان دینا چاہیے تاکہ وہ عوام کو انقلابی خطوط پر منظم کرسکیں۔ قاضی داد ریحان کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کہ بی این ایم کے سو ارکان حالات بدلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، انقلابی جماعتوں کے 10ارکان معاشرے کی کایا پلٹ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ انقلابی ہتھیاروں سے لیس ہوں۔ بلوچ رہنما لیاری کو بلوچستان سے علیحدہ کرکے دیکھیں وہاں کی طرز معاشرت، عوامی مزاج، معاشی وسیاسی مسائل کوئٹہ، تربت ، خضدار اور گوادر سے یکسر مختلف ہیں۔ لیاری کو اس وقت طویل المدت حکمت عملی کے مطابق نظریاتی جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ کسی مہم جوئی کی نہیں۔